وزیراعظم نااہلی کیس میں نظرثانی کی درخواست پر سماعت ملتوی

وزیراعظم نااہلی درخواست پر نظرثانی کی اپیل مسترد | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آبا: سپریم کورٹ پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواست پر نظرثانی کی اپیل کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں معاملے کی سماعت کی۔ درخواست گزار حنیف عباسی کی جانب سے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیے۔

اکرم شیخ نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ اس مقدمے میں ٹرسٹ سے متعلق قانون نظر انداز کیا گیا ہے، عدالت آرٹیکل 1710 کی تشریح نہیں کر سکتی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت نے نواز شریف کی نااہلی پانامہ پر نہیں اقامہ پر کی گئی، حنیف عباسی کی درخواست میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا۔

بینچ کے سربراہ نےاستفسار کیا کہ کیس کے فیصلے میں کون سا ایسا نقطہ ہے جس پر آپ نظر ثانی چاہتے ہیں؟

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت نے نیازی ٹرسٹ سے صرف نظر کیا، عمران خان کا پورا کیس بینیفیشل اونر اور ٹرسٹی کے گرد گھومتا ہے، عمران خان 40 سال تک جرم کرتے رہے اور بعد میں ایمنسٹی کے ذریعے دھل گئے، جرم تو جرم ہوتا ہے جوختم نہیں ہوتا۔

وکیل نے کہا کہ دشمن ملک سے فنڈ لیکر کوئی جماعت پانچ سال خاموش رہے تو کیا ہو گا؟

اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کیس کے لیے الگ معیار تھا، معاملہ پانامہ کا تھا اور نواز شریف نا اہل اقامہ پر ہوئے اور عمران خان کے کیس میں الگ معیار ہوا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے کیس میں ڈیکلیریشن کا پورا سلسلہ ہے، پی ٹی آئی رہنما کے کیس میں کافی ساری چیزیں ظاہر نہیں کی گئیں، عمران خان نے اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہیں کیے تھے اور عدالت نے فیصلے میں اس چیز کو نظر انداز کیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پٹیشن اس حوالے سے تھی ہی نہیں۔

حنیف عباسی کے وکیل نے بتایا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ 6لاکھ7 ہزار بنی گالہ زمین کا بیانہ دیا اور 1کروڑ 45 لاکھ بعد میں ادا کئے لیکن 1کروڑ 45 لاکھ کا ذکر کاغذات نامزدگی میں نہیں۔

شیخ اکرم کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جمائمہ کے صرف پاکستانی اثاثے ظاہر کیے، اس کی بیرونی ملک جائیداد کا نہیں بتایا جب کہ قانون کے مطابق اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہے۔

درخوست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کا تمام کیس میں ایک ہی نظریہ ہونا ضروری ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی نوعیت  کے کیسز میں  مختلف نقطہ نظر ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس فیصلے کے وقت وفاقی حکومت مسلم لیگ ن کی تھی، اس میں ہم نے عوامی عہدے کے نقطے پر بھی غور کیا۔


متعلقہ خبریں