پی ٹی آئی کے یوٹرن کی وجہ میڈیا کا دباؤ ہے، سہیل وڑائچ


اسلام آباد: معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ  کا کہنا ہے کہ  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  میڈیا کا دباؤ لیتی ہے اور اس کی وجہ سے فیصلوں سے یو ٹرن لے لیتی ہے جس سے ان کی ناتجربہ کاری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام ’’بڑی بات‘‘ کے میزبان عادل شاہزیب سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باقی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف بھی غلطیاں کر کے سیکھے گی۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو متوسط طبقے نے ووٹ دیے ہیں اور اسی طبقے کو ان سے بہت امیدیں ہیں، چھ ماہ میں اگر پی ٹی آئی نے عوام کے سامنے کوئی سمت واضح نہ کی تو ان کے لیے مشکلات بڑھنے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کوشش کرتی رہے گی کہ صوبہ سندھ میں ان کی حکومت قائم رہے اور سابق صدر آصف علی زرداری پر جو مقدمات چل رہے ہیں وہ کسی طرح ٹل جائیں۔ دوسری جانب پی پی پی رہنماوں نے شہباز شریف کے ساتھ بھی اپنے روابط بہتر کر لیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، اگر یہ یکجا ہو گئیں تو مستقبل میں پی ٹی آئی کو ایک مضبوط آپوزیشن کا سامنا کرنا ہو گا۔ حکومت کو ہر حال میں چھ مہینے کے اندر کارکردگی دکھانی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف سیکرٹری پنجاب تبدیل ہوئے ہیں، آج سے انتظامیہ کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھی جائے گی بلکہ یہ کہنا موزوں ہے کہ اب تبدیلی آئی ہے۔

پروگرام میں شریک پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت شاندانہ گلزار خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تو یہ سب کے سامنے ہو گا یہ بات راز میں نہیں رکھی جائے گی۔

ایون فیلد ریفرنس کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ نیب نے جو شواہد اکٹھے کیے ہیں وہ ناکافی اور کمزور ہیں، جب اپیل کی سماعت ہو گی تو نیب پراسیکیوٹرز کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

جسٹس (ر) شائق عثمانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب نے اس کیس میں بہت لاپرواہی (casual) دکھائی ہے، نوازشریف خاندان کے خلاف  شواہد اکٹھے کرنے میں اس سے بہتر کام کیا جا سکتا ہے۔ اس کیس میں فائدہ نوازشریف کو ہو گا۔

پروگرام میں شریک ماہر بین الاقوامی قانون عادل نجم نے کہا کہ سعودی عرب کے لیے ہم امریکہ کی پالیسی میں ایک تبدیلی دیکھ رہے ہیں، پہلے سعودی عرب کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی محتاط تھی لیکن اب اس میں جارحیت پائی جاتی ہے۔ امریکہ نے یہ رویہ شاید سعودی ایران تعلقات سے اختلاف کی بنا پر اختیار کیا ہے تاک سعودی عرب پر دباؤ پیدا کر سکے۔


متعلقہ خبریں