سپریم کورٹ نے کمسن امل کیس میں کمیٹی قائم کر دی



اسلام آباد: کراچی میں مبینہ پولیس مقابلہ کے بعد زندگی سے محروم ہونے والی دس سالہ امل عمر کے کیس میں سپریم کورٹ نے دو رکنی کمیٹی قائم کر دی۔ عدالت عظمی نے نجی اسپتال کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔

قتل کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی پولیس ٹریننگ اور قواعد میں ترامیم اور نجی اسپتالوں میں علاج کی سہولیات کے متعلق رپورٹ مرتب کرے گی۔

منگل کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں کراچی میں دس سالہ بچی امل عمر کی پولیس غفلت کے باعث ہلاکت پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ، آئی جی سندھ اور نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) کے منتظم کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ازخود واقعہ کی تحقیقات کرا رہے ہیں۔ ازخود نوٹس میں اسپتال کے منتظم کو طلب کیا گیا تھا وہ کہاں ہیں اور اب تک کیوں نہیں آئے؟

مقتول امل کی والدہ نے چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 13 اگست کی رات دس بجے ہم کراچی کے مرکزی علاقے سے گزر رہے تھے۔ اس دوران ایک اشارے پر رکے تو ڈکیتوں نے گاڑی کے شیشے پر دستک دے کر موبائل فون اور میرا بیگ چھینا۔

امل کی والدہ کے مطابق ٹریفک اشارہ کھلا تو فائرنگ شروع ہو گئی اور گولی ہماری ونڈ اسکرین اور میری بیٹی امل کو لگی۔ ہم امل کو لے کر این ایم سی پہنچے تو ڈاکٹرز نے ہمیں دوسرے اسپتال منتقل کرنے کا کہا۔ ہم نے ڈاکٹرز سے پمپ ٹیوب دینے کا کہا تو انہوں نے وہ بھی نہیں دیا۔ اسپتال میں میری بیٹی کو طبی امداد نہیں ملی۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پولیس اگلے روز امل کی فاتحہ پڑھنے گھر پہنچ گئی تھی جب کہ ہمیں دو روز بعد پتہ چلا کہ ہماری بیٹی کو لگنے والی گولی پولیس کی جانب سے چلائی گئی تھی۔

متاثرہ بچی کی والدہ کے مطابق وہ نہیں جانتیں کہ پولیس شہر میں اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے اے کے 47 کیوں استعمال کر رہی ہے؟ کیا کراچی کوئی جنگی علاقہ ہے؟ یہ فلسطین، شام، عراق نہیں ہے جہاں جنگی ہتھیاروں سے اسٹریٹ کرائم روکے جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ ڈکیتوں پر فائرنگ کرنے والا اہلکار پروفیشنل بھی تھا کہ نہیں تا ہم پولیس ابتداء میں جھوٹ بول رہی تھی۔ ہمیں ایسے واقعات کے سدباب کے لئے اصول وضع کرنے ہوں گے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کئی اسپتالوں کے بارے میں لوگ شکایتیں کرتے ہیں۔ یہ نجی اسپتال والے بے حس ہو چکے ہیں۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی اسپتال کا مالک خود نہیں آیا بلکہ اپنا تنخواہ دار ملازم بھیج دیا۔

مقتول بچی کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر اتنا بڑا اسپتال ہے اور افسوس کے ان کے پاس ایمبولینس نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے لیے تو قوانین ہیں لیکن نجی اسپتالوں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس مجرمانہ غفلت پر ہم کمیٹی بناتے ہیں جو اس کی تفتیش کرے گی۔ پولیس کی جانب سے عدالت میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ واقعہ میں گولی سب سے پہلے پولیس اہلکار کو لگی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب مجرم پر گولی چلائی جائے تو گولی کہیں بھی لگ سکتی ہے لیکن کیا ایک بار گولی چلائی گئی یا مسلسل فائرنگ کی گئی تھی؟ پولیس کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق ایک پولیس اہلکار نے ہوائی فائرنگ کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا تو ایسا ہے کہ پولیس نے پورا برسٹ مارا تھا۔ اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لئے اتنا بڑا ہتھیار نہیں دینا چایئے جب کہ یہاں تو بغیر تربیت کے پولیس اہلکار کو ایس ایم جی رائفل پکڑا دی گئی۔ مقتولہ امل کی والدہ نے کہا کہ پولیس نے خود اعتراف کیا ہے کہ اُنہیں تربیت نہیں دی گئی۔

پولیس کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ پولیس میں پہلے تربیت کا فقدان ہو لیکن اب تو پولیس کو فوج تربیت دے رہی ہے، ہم مانتے ہیں کہ پولیس نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن گولی سب سے پہلے ملزم کو لگی تھی۔

نیشنل میڈیکل سینٹر کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے اسپتال منتظم نے مؤقف اختیار کیا کہ بچی کو سر کے پچھلے حصے میں گولی لگی تھی لیکن اس کا دنیا میں کہیں بھی علاج ممکن نہیں کیونکہ سر میں لگی ہوئی گولی چلتی رہتی ہے۔

دس سالہ بچی امل کو 13 اگست کی شب پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں گولی لگی تھی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی تھی۔ زخمی امل کو نیشنل میڈیکل اسپتال میں ڈاکٹرز نے معمولی دوا دینے کے بعد دوسرے اسپتال منتقل کر دیا تھا، اسپتال کی جانب سے بچی کے لیے کوئی ایمبولینس بھی مہیا نہیں کی گئی تھی اور وہ دوسرے اسپتال جاتے ہوئے راستے میں انتقال کر گئی تھی۔


متعلقہ خبریں