اسلام آباد: پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ روانہ ہوگئے۔
امریکی دورے کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلی عہدیداروں سے بھی ملاقات کریں گے۔
شاہ محمود قریشی اپنے ایک ہفتہ کے طویل دورے کے دوران پاکستانی کمیونٹی سے واشنگٹن میں خطاب کریں گے۔
پاکستانی وزیر خارجہ جنرل اسمبلی کے سیشن سے 29 ستمبرکو خطاب کریں گے، یہ سیشن تعطیلات کے علاوہ نو روز تک جاری رہے گا۔
پاکستانی وزیرخارجہ کی امریکہ میں قیام کے دوران سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو سے واشنگٹن میں ملاقات بھی متوقع ہے۔ یہ ملاقات شاہ محمود قریشی اور ان کے امریکی ہم منصب کے درمیان رواں ماہ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ کے دورہ اسلام آباد کے دوران دونوں ملکوں نے اپنے مسائل زدہ دوطرفہ تعلقات کو ازسرنو تشکیل دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
اسلام آباد ائیر پورٹ سے روانگی کے وقت شاہ محمود قریشی بورڈنگ پاس کے لیے عام مسافروں کے ساتھ لائن میں کھڑے رہے۔ اس موقع پر مسافروں نے وزیر خارجہ کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں۔
قطر میں میڈیا سے گفتگو
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکہ جاتے ہوئے دوحہ قطرمیں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کی۔ گفتگو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے پیش کردہ جزبہ خیر سگالی کے جواب میں مذاکرت سے پیچھے ہٹنے پر افسوس ہوا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا دونوں ممالک کے تصفیہ طلب مسائل کا حل بات چیت میں ہے جس سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستان کا موقف بھرپور طریقے سے بیان کیا جائے گا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جنرل اسمبلی اجلاس کے علاوہ سائڈ لائنز پر ہونے والے دیگر اجلاسوں اور ملاقاتوں میں بھی پاکستان کا بھرپور انداز میں مؤقف پیش کیا جائے گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو کے ساتھ ہونے والی دوسری ملاقات پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کے سلسلے میں اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔
بھارت کا مذاکرات سے فرار
قبل ازیں بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر پاک بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات پر آمادگی ظاہر کی تھی تاہم اب حسب روایت وہ مذاکرات سے بھاگ گیا ہے۔
بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس سے پہلے بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ اس ملاقات کو مذاکرات کی بحالی نہ سمجھا جائے۔ یہ ملاقات دہشت گردی اور سرحد پار دہشت گردی کے متعلق بھارتی مؤقف میں کسی تبدیلی کی علامت نہیں۔