اسلام آباد: وفاقی دارلحکومت کے احتساب عدالت نمبر دو میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت منگل گیارہ ستمبر کی دوپہر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
پیر کےر وز احتساب عدالت نمبر دو کے جج محمد ارشد ملک نے العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران نواز شریف کو اڈیالہ جیل سے 12 ویں بار احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالتی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف اور متعدد ن لیگی رہنما کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ راجہ ظفر الحق اور اقبال ظفر جھگڑا نے نواز شریف سے ملاقات کی۔
دوران سماعت خواجہ حارث نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ اور ریفرنس کے اہم گواہ واجد ضیاء پر جرح جاری رکھی۔
احتساب عدالت میں سماعت کے دوران جج ارشد ملک جوڈیشل کمپلیکس کی حالت زار پر برہم نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک کوئی اس عمارت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔
جج ارشد ملک کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے اور بلڈنگ ڈپارٹمنٹ جوڈیشل کمپلیکس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، آج تک یہ عمارت باقاعدہ طور پر ٹھیکے دار کی طرف سے حوالے نہیں ہوئی ہے۔
احتساب عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ چیف صاحب کو خط لکھ کر اس معاملے کی طرف توجہ دلائی گئی لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
واجد ضیاء نے اپنے جوابات میں کہا کہ جے آئی ٹی کے پاس موجود ایک سورس دستاویز میں ایچ ایم ای کو کمپنی لکھا ہے، سورس دستاویز ایم ایل اے لکھے جانے کے بعد 20جوں کو موصول ہوئی تھی۔
واجد ضیاء نے تصدیق کی کہ ایم ایل اے میں 2004_05 کو ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی انکارپوریشن کا سال لکھا گیا ہے۔ ایم ایل اے لکھے جانے کے وقت کسی گواہ نے ان کارپوریشن کا سال نہیں بتایا تھا۔
جمعہ کو دوران جرح خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے پوچھا تھا کہ ہل میٹل کمپنی ہے، کارپوریشن ہے یا پروپرائٹرشپ ہے؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ دستاویزات میں اس سے متعلق نہیں لکھا گیا کہ یہ کمپنی ہے یا کارپوریشن، دستاویزات میں ایسی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی، اس کاروبار کو دستاویزات میں اسٹیل بنانے کا کاروبار ہی لکھا گیا تھا۔