کیمیائی حملےکی حماقت ہوئی تو حرکت میں آئیں گے،امریکہ


 اسلام آباد:امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر بشارالاسد حکومت نے شامی عوام کے خلاف دوبارہ کیمیائی حملے کی حماقت کی تو ہم حرکت میں آئیں گے اورفوراً مُناسب جواب دیں گے۔

یہ تنبیہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے اخبارنویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے دی۔ انہوں نے واضح کیا کہ   شام میں کیمیائی حملے کے جواب سے متعلق ہمارا موقف واضح اور دو ٹوک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بشارالاسد نے کیمیائی حملے کا دوبارہ ارتکاب کیا تو امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس کا فوراً مناسب جواب دے گا۔

امریکہ کی جانب سے یہ تنبیہ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب بشارالاسد حکومت کے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ وہ روس اور ایران کے ساتھ مل کر شامی شہر ادلب پر فوج کشی کی بھرپور تیاریوں کو حتمی شکل دے چکا ہے۔

اقوام متحدہ نے گزشتہ روز خبردار کیا تھا کہ اگر ادلب پر حملہ کیا گیا توانسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نے بھی گزشتہ روز ٹوئٹ پیغام میں خبردار کیا تھا کہ بشارالاسد حکومت، روس اورایران ادلب پر فوج کشی سے گریز کریں وگرنہ لاکھوں بے گناہ عام شہری مارے جاسکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ اگر ادلب پرحملہ کیا جاتا ہےتو یہ ایران و روس کی سنگین انسانی غلطی ہوگی اور اس کے بھیانک نتائج کے ذمہ دار بھی وہی ہوں گے۔

امریکا کی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل جوزف ڈانفرڈ نے بھی خبردار کیا ہے کہ شام کے شہرادلب میں وسیع فوجی آپریشن ’انسانی المیے‘ کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر ادلب میں آپریشن ناگزیر ہے تو اسے صرف انتہا پسندوں کے مراکز تک محدود رکھا جائے۔

دورہ یونان کے اختتام پر پاکستان روانگی سے قبل جنرل جوزف  نے ایتھنز میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ادلب میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کیا گیا تو انسانی المیہ یقینی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم سب ادلب میں انسانی المیہ نہیں چاہتے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق روس کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ادلب دہشت گردی کا گڑھ بنا ہوا ہے اور یہ کہ وہاں کی صورت حال شام کے تنازعہ کے سیاسی حل کے تلاش کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

وائس آف امریکہ کے مطابق روس نے ایران کی ادلب پر ممکنہ چڑھائی کی شرکت کی حامی بھری ہے جس کا مقصد شام کی جانب سے باغیوں کے زیر قبضہ صوبہٴ ادلب پر دوبارہ قبضے کا حصول ہے۔

ادلب کو شام میں حکومت مخالفین کا آخری لیکن مضبوط ترین گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

روس کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ ادلب دہشت گردی کا گڑھ بنا ہوا ہے بلکہ سیاسی حل کے تلاش کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔

ایرانی ذرائع ابلاغ نے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کےشام کے دورے کے حوالے سے کہا ہے کہ ادلب کو شامی عوام کے کنٹرول میں ہونا چاہیئے اور یہ کہ شام میں تعمیر نو کی کوششیں اور مہاجرین کی واپسی جاری رہنی چاہئیں۔

ادلب میں تقریباً 30 لاکھ افراد مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اُسے ہلاکتوں میں اضافے کے امکان پر پریشانی لاحق ہے جو شام کی فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہو سکتی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق ٹرینٹی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسرڈیوڈ لیش سان اینتونیو کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہ کرنے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کسی حد تک دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن ادلب میں جو کچھ ہوتا ہے امریکہ اس پر محدود حد تک ہی اثرانداز ہوسکتا ہے۔

انسانی حقوق کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے ادارے’آبزر ویٹری‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 22 روز کی خاموشی کے بعد گزشتہ روز روسی جنگی طیاروں نے ادلب میں متعدد مقامات پر بمباری کی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے اپوزیشن کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ الشغور پل کے مغرب میں کیا گیا۔ 


متعلقہ خبریں