منچھر جھیل کی صفائی نہ ہونے پر سپریم کورٹ کا اظہار برہمی


کراچی: سپریم کورٹ نے منچھرجھیل کی صفائی نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سندھ میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ دس سال سے حکومت نے کیا کام کیا ہے، چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ٹینکر مافیا سے عوام کی جان چھڑائیں گے۔

اس موقع پر واٹر کمیشن نے موقف دیا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ (ٹی پی) ون اور ٹی پی تھری سمیت  کئی منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، عدالت نے کمیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ماہانہ کارکردگی رپورٹس جمع کرانے کا حکم  دیا۔

منچھر جھیل کراچی سےتقریباً 280 کلومیٹر (175میل) کے فاصلے پر ضلع دادو کے تعلقہ جوہی میں کوہ کیرتھر کے دامن میں واقع ہے، یہ جھیل کب وجود میں آئی، اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ جھیل موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، یعنی یہ قدیم ترین پتھر کے دور سے اسی جگہ پر موجود ہے۔

منچھر جھیل دریائے سندھ سے قدرے بلندی پر واقع ہے اور پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے، اس میں پانی کا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں اس لیے جب دریا میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے تو اس کا زائد پانی حفاظتی پشتے توڑ کر پورے علاقے میں پھیل جاتا ہے مگر جب دریا کی سیلابی کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو جھیل کا زائد پانی دریائے سندھ میں واپس چلا جاتا ہے اور منچھر جھیل اپنی اصل حالت میں واپس آجاتی ہے۔

ان حالات کے پیش نظر گزشتہ صدی کے دوران اسے دریائے سندھ کے ساتھ ملانے کے لیے ’’اڑی‘‘ نامی ایک نہر بنا دی گئی تھی جس سے دریا کا سیلابی پانی منچھر جھیل میں محفوظ ہو جاتا ہے، یہ جھیل520مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض علاقے میں پھیلی ہوئی ہے لیکن تاریخ میں اہم مقام رکھنے والی یہ جھیل اس وقت تباہی و بربادی کا شکار ہے۔

ستر کی دَہائی میں سندھ کے مختلف شہروں سے نکاسی آب کی بڑی بڑی لائنیں اور نہریں نکالی گئیں جن کے ذریعے ان شہروں کا فضلہ، صنعتوں کا زہریلا پانی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے زہریلے کیمیائی مواد سے بھرپور باقیات اس جھیل میں گرنے لگیں۔

اسی طرح دریائے سندھ کے آس پاس کی زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے وہاں سے نمکین یا کھارا پانی بھی اسی جھیل میں ڈالا جانے لگا، گو کہ بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ دریائے سندھ کا نمکین پانی بحیرہ عرب میں بہا دیا جائے لیکن فنڈز کی کمی کے باعث یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور یہ پانی منچھر جھیل کو آلودہ اور زہریلا کرتا رہا۔

1990 میں کیے جانے والے ایک تحقیقاتی تجزیے سے پتا چلا کہ جھیل کا پانی نمکین ، کیمیائی مواد اور فضلے کی آمیزش کی وجہ سے زہریلا ہو چکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا، یہاں کی آبی حیات اور پودے مر چکے ہیں یا ان کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی آچکی ہے جب کہ اس پانی سے زراعت بھی ممکن نہیں رہی۔

صدیوں سے منچھر جھیل میں پائی جانے والی تقریباً دو سو سے زائد اقسام کی مچھلیاں بالکل ختم ہوگئیں، اب جو مچھلیاں اس جھیل میں ہیں، ان میں سندھی حرگو، گندن، لوھر، سنگاڑا، پھندملی، موراکا اور کڑوا وغیرہ شامل ہیں، اس وقت منچھر جھیل مچھلیوں کی افزائش کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اب بھی اس جھیل سے لاکھوں من مچھلی  ہر سال پکڑی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے منچھر جھیل کی آلودگی کے حوالے سے نہ صرف از خود نوٹس لیا تھا بلکہ اس کی صفائی کے احکامات بھی دے رکھے ہیں۔


متعلقہ خبریں