سرکاری زمین نیلامی کے بغیر نہیں لینے دیں گے ،سپریم کورٹ

سپریم کورٹ: سندھ، سرکاری زمینوں پر سے قبضہ ختم کرانے کا حکم

فوٹو: فائل


کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریمارکس میں واضح کیا ہے کہ کسی کو بھی نیلامی کے بغیر سرکاری زمین نہیں لینے دی جائے گی۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ سرکاری زمینوں کی بندربانٹ نہیں ہونے دیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بنچ نے پولٹری فارمز سمیت دیگر صنعتی اراضی کی لیز کے لیے 40 سے زائد درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کراچی رجسٹری میں ہوئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ کیا معلوم ہے پاکستان کتنا مقروض ہے؟ اورپھر خود بتایا کہ ایک فرد ایک لاکھ 17 ہزار کا مقروض ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ لوگوں کے مفادات چلتے رہیں گے لیکن ہم نے ریاست کا تحفظ اور مفاد کو یقینی بنانا ہے۔

سپریم کورٹ کے روبرو پولٹری فارمز کے وکلا نے مؤقف اپنایا کہ لیز میں توسیع نہ ہونے پر پولٹری فارمز بند ہورہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر ریمارکس دیے کہ یہ کہنے کی باتیں ہیں تاکہ عدالت سے رعایت مل جائے۔ انہوں نے مثال دی کہ کثیرالمنزلہ عمارتوں پر پابندی لگی تو کہا گیا کہ انڈسٹری بند ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ بنچ کے سربراہ نے ریمارکس میں واضح کیا کہ جس نے زمین لینی ہے کھلے عام آکشن (نیلام) میں جائے۔

سپریم کورٹ بنچ کے سربراہ نے سیکریٹری ریونیو سے استفسار کیا کہ یہ آپ کیسے زمینوں کی بندر بانٹ کررہے ہیں؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ازخود نوٹس لیا مگر جس کا دل چاہتا ہے درخواست لگا دیتا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس موقع پر ریمارکس میں کہا کہ کے ڈی اے (کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی)  نے 37 سال پہلے دو روپے فی ایکڑ اراضی لیز پر دی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا دوروپے کوئی قیمت ہوتی ہے؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اظہاربرہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ سندھ میں کس قانون کے تحت سرکاری زمینیں الاٹ کی جارہی ہیں؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو ساری بدمعاشیاں چل رہی ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے ریمارکس دیےکہ قبضہ مافیا ملک کھا گئے، ریاست کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں بندر بانٹ کی گئی اوربغیر نیلامی پلاٹ بانٹ دیے گئے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں واضح کیا کہ سندھ میں جو ہوتا رہا، قانون کو مدنظررکھ کر فیصلہ کریں گے اور زمینوں کی لیز و الاٹمنٹ کی شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔

دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ونڈ پاور پراجیکٹ کے وکیل سے استفسارکیا کہ آپ پڑھیں! ایک صفحہ پر ناٹ ٹو کرپشن لکھا ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ بس اوپر ناٹ ٹو کرپشن مگر نیچے سب کرپشن ہی کرپشن ہے۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم کرپشن کے دروازے نہیں کھولنے دیں گے اور استفسارکیا کہ چیف سیکریٹری اورسیکریٹری ممبر بورڈ آف ریونیو کہاں ہیں؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ گھر بیٹھے درخواست پر پلاٹ الاٹ اور مرضی کے چارافراد کی کمیٹی بن جاتی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے صنعتی اراضی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ہدایت کی کہ وکلا تیاری کرکے آئیں، دیکھیں گے کتنی شفافیت ہے؟

عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری ممبر بورڈ آف ریونیو کو بھی تیاری کرنے کی ہدایت دی۔

سپریم کورٹ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاکستان ریلویز کی جانب سے سٹی کالونی میں زمین لیز دینے سے متعلق درخواست کی بھی سماعت کی۔

پاکستان ریلویز کے وکیل نے دوران سماعت سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ 2100 گز زمین ریلوے لیز پر دے رہا ہے لیکن ریونیو لیز نہیں کررہا  ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین ریلوے مقاصد کے لیے دی گئی تو آپ آگے مزید لیز پر کیسے دے سکتے ہیں؟

سپریم کورٹ کے سربراہ نے ایڈوکیٹ جنرل سے معلوم کیا کہ آپ بتائیں کیا ریلوے زمین لیز پر دے سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ریلوے وفاق کا پارٹ ہے تو زمین کیسے فروخت کرسکتا ہے؟

اس موقع پر بنچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ریلوے کے خلاف متعدد درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں۔

عدالت نے ریلوے کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔


متعلقہ خبریں