تاحیات نااہلی اسلام کے خلاف ہے،چیف جسٹس

سپریم کورٹ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس میں ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی اسلام کے خلاف ہے۔ 

اپنے ریمارکس میں انہوں نے مزید کہا کہ سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے۔قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا رتبہ بہت بلند ہے،انسان برا نہیں اس کے اعمال برے ہوتے ہیں،62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے،اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

کوٹہ پر صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ؟ ایسی پالیسی کو اٹھا کر پھینک دینا چاہئے ، چیف جسٹس

درخواست گزار فیاض احمد غوری اور سجادالحسن کے وکیل خرم رضا نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟ کیا آرٹیکل187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقررکی گئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل خرم رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں، جس پر خرم رضا کا کہنا تھا عدالت مقدمے کی کارروائی 184/3 میں چلا رہی ہے یا 187 کے تحت؟ آرٹیکل 62 میں کورٹ آف لا کی تعریف نہیں بتائی گئی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلیئریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لا درج ہے سپریم کورٹ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا بہتر ہوگا ہمیں الیکشن ٹربیونل کے اختیارات کی طرف نہ لیکر جائیں، آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے۔

جوڈیشل کمیشن اجلاس، پشاور ہائیکورٹ کے 3ایڈیشنل ججز کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیارمیں سنتی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا درست، لیکن کیا 62 ون ایف ٹربیونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائرہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگرالیکشن کمیشن تاحیات نااہل کرسکتا ہے تواختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔


متعلقہ خبریں