فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس، وفاق اور الیکشن کمیشن کا بھی درخواست واپس لینے کا فیصلہ

ہائیکورٹ بار (highcourt bar)

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم ریاستی ادراوں کو تباہ کرنا نہیں چاہتے، سب سچ بولنے سے کیوں ڈر رہے ہیں، سچ بولنے کیلئے ہمت کریں، کس کے حکم پر نظر ثانی دائر کی؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان بینچ کا حصہ تھے۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان، الیکشن کمیشن کے حکام، پیمرا اور پی ٹی آئی کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت سے قبل ہی فریقین نے نظر ثانی کی درخواستیں واپس لے لیں۔ انٹیلی جنس بیورو اور پیمرا کے بعد وفاق اور پی ٹی آئی نے بھی فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ میں دائر نظرِ ثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔

فیض آباد دھرنے پر عدالت نے بلایا تو ساری باتیں بتادوں گا، شاہد خاقان عباسی

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کتنی نظرثانی درخواستیں ہیں؟ 9 نظر ثانی درخواستیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایم کیو ایم کی درخواست پر کوئی پیش ہورہا ہے؟ عدالتی عملے نے جواب دیا کہ ایم کیو ایم کی درخواست پر کوئی نہیں آیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ریگولر بینچ ہے اسپیشل نہیں ہے، عموماً ایسی درخواستیں اسی بینچ میں سنی جاتی ہیں جس نے فیصلہ دیا ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ وفاق 266 نمبر کی درخواست پر سماعت نہیں چاہتی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وفاق کیوں سماعت نہیں چاہتا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ اس وقت جب نظر ثانی درخواست دائر ہوئی، حکومت کا فیصلہ تھا۔ ہم سادہ طریقے سے یہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

سپریم کورٹ سے تاریخ لینے والا رجحان اب نہیں چلے گا، چیف جسٹس کا پیغام

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے تو کہا گیا تھا کہ ہمارے فیصلے میں کئی غلطیاں ہیں۔ اگر کوئی کچھ کہنا چاہتا ہے تو وہ اس عدالت میں آکر کہیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور یوٹیوب پر کچھ کہیں گے تو کیا کہیں؟  ایسی چیزیں عوام کے ذہن میں سوال پیدا کرتے ہیں کہ ان کو سنا نہیں گیا۔ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں، جو کچھ کہنا ہے یہاں آکر کہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر التوا ہو تو اس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اتنے سال سے کیس زیر التوا رہا، کوئی نہیں بولا۔ جب کیس سماعت کیلئے مقرر ہوا تو پھر باتیں سامنے آگئیں۔ ہم یہاں زبانی تقاریر نہیں سن سکتے، یہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں۔ اگر کسی نےکچھ بولنا ہے تو وہ درخواست فائل کرے، ہم سنیں گے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔


متعلقہ خبریں