انتخابات کیس سے متعلق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ بات چیت کرتے رہیں لیکن عدالت نے آئین پر عمل کرنا ہے، اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو ہمارا فیصلہ موجود ہے۔
ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ایک ہی روز انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مذاکرات کے بارے میں فاروق نائیک عدالت کو آگاہ کریں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خوشی ہے شاہ محمود قریشی اور سعد رفیق عدالت میں موجود ہیں۔ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
سینیٹ میں سپریم کورٹ فیصلوں اور آرڈرز پر نظر ثانی بل منظور
فاروق نائیک نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ متفرق درخواست پڑھتے ہوئے بتایا کہ مذاکرات میں چیئرمین سینیٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ مذاکرات میں فریقین کے نامزد اراکین نے شرکت کی۔ مذاکراتی کمیٹی نے 5 اجلاس کیے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ ملکی معیشت 2017 سے بہتر پوزیشن میں نہیں، پاور سیکٹر میں سرکولر ڈیٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کی حالت بھی بہتر نہیں ہے، گزشتہ سال کے سیلاب سے کئی لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوا۔ معاشی ابتر صورتحال کو پی ٹی آئی بھی تسلیم کرتی ہے، مذاکرات میں الیکشن ایک ہی دن کرانے پر اتفاق ہو اہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ فنانس منسٹرکی دستخط سے جمع ہوئی ہے، سیاسی معاملے کو سیاسی قیادت حل کرے۔ موجودہ درخواست ایک حل پر پہنچنے کی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ آپ کہاں استعمال کرنا چاہتےہیں؟ جواب میں فاروق نائیک نے کہا کہ آئی ایم ایف قرضہ کہاں استعمال ہوگا جواب وزارت خزانہ دے گی۔
حکومت انتخابات پر مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کیلئے تیار
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ایک بار اسمبلی ختم ہو تو 4 ماہ کا وقت الیکشن کرانے میں لگتا ہے۔ اخبارو ں میں پڑھا ہے کہ آئی ایم ایف قرض سے آپ کچھ قرض ادا کرناچاہتے ہیں۔ کیا مذکرات کے دوسرے فریق نے بجٹ کی اہمیت سے انکار کیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں انتخابات 90 دن میں ہوں اس سے انکار کوئی نہیں کرسکتا، یہ مسئلہ اہم قومی معاملہ ہے۔ اس میں آئین اور عوامی بنیادی حقوق کا بھی معاملہ ہے۔ میں نے شور سنا ہے کہ فریقین نے مذاکراتی عمل پر تنقید نہیں کی تاریخ پر بات چیت ہونی ہے۔ فریقین ٹی وی پر ایک ہی دن انتخابات پر راضی نظر آئے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہمیں وقت بتایا جائے کہ کب تک مذاکرات ہوسکتے ہیں؟ وقت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ ہم غصہ کرتے ہی نہیں اگر کریں گے تو انصاف ہوگا ہی نہیں۔ بات چیت کے عمل کو آپ خود درست کریں۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے الیکشن پر مذاکرات سے متعلق جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے جواب اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔ جواب میں کہا گیا تھا کہ حکمران اتحاد یقین رکھتا ہے کہ سیاسی معاملات کا حل سیاسی بات چیت میں ہے۔