حکومت کا چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

مریم اورنگزیب

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ عدالتی کارروائی پر سوالیہ نشان ہے، جب پٹیشن مستر د ہو گئی تو اس پر بینچ کیسے بنا ؟ انہوں نے کہا چیف جسٹس کی حیثیت متنازعہ ہوچکی ہے اس لئے مستعفی ہوجائیں۔

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر از خود نوٹس لینا بھی غلط تھا، جسٹس اطہر من اللہ

انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کے چار ججز نے کہا کہ معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے، سیاسی جماعتوں نے بھی فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا یہ معاملہ بالکل الیکشن کا نہیں ہے، سیاسی جماعتیں الیکشن سے نہیں بھاگتیں، الیکشن کے وہ فیصلے جو مسلط کیے جائیں وہ ناقابل قبو ل ہیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا یہ الیکشن کا نہیں بینچ فکسنگ کا معاملہ ہے جس پر اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے ہیں، یہ واردات دو پہلوؤں سے ہو رہی تھی، اس کا ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا عدالتی پہلو ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات استفسار کیا جس فیصلے کو سپریم کورٹ کے اکثر ججز بھی نہ مانیں وہ عوام کیسے مانیں؟ جسٹس اطہر من اللہ کا نوٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ مسترد شدہ پٹیشن تھی۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں، قومی اسمبلی میں قرارداد منظور

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے استفسار کیا کیوں جھوٹ بولا گیا کہ ججز نے اپنے آپ کو علیحدہ کیا ہے؟ ملک کی تاریخ میں کبھی ایسا فیصلہ نہیں ہوا، انتخابی معاملے میں سیاسی جماعتوں کو سنا ہی نہیں گیا،
سوال تو بنتا ہے کہ 13 سیاسی جماعتوں کو کیوں نہ سنا گیا؟ سپریم کورٹ کی لاج رکھنے کے لئے سن لیتے، الیکشن کا فیصلہ الیکشن کمیشن نےکرنا ہے، عمران خان نے نہیں۔

انہوں نے کہا بینچوں کی تشکیل کا عمل صاف و شفاف اور منصفانہ ہونا چاہیے،  اس کیس میں پٹیشنر گھڑی چور تھا، جھوٹی سائفر کی سازش کرنے والا تھا، عمران خان نے کہہ دیا تو الیکشن کروانے ہیں؟ اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئین کی مرضی کی تشریح قبول نہیں کی جاسکتی ، پنجاب میں اصول مکمل کیا گیا لیکن خیبرپختونخوا میں نہیں،
پارلیمنٹ نے بات کی کہ آپ ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں مداخلت کررہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پٹیشنر کی نیت کو دیکھ کر سوموٹو لینا چاہیے ، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس سوموٹو نے عدالت کو تنازعات سے دوچار کیا، یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ عمران داری کی جا رہی تھی، سیاسی جماعتوں نے کہا کہ فل کورٹ بنایا جائے، ناقابل سماعت کیس کا بینچ بنا کر فیصلہ قبول نہیں کیا جا سکتا،
یہ آئین ، قانون اور چیف جسٹس کے اختیارات کا معاملہ ہے، چیف جسٹس کی حیثیت متنازعہ ہوچکی ہے اس لئے مستعفی ہوجائیں۔

سیاسی جماعتیں عدلیہ اور افواج پاکستان کیخلاف بات نہیں کریں گی، الیکشن کمیشن

مریم اورنگزیب نے کہا آئین کے ساتھ کھلواڑ کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی، آرٹی ایس کو بٹھا کر ایک شخص کو مسلط کیا گیا جس نے ملکی معیشت تباہ کی، آج اسی کی سہولت کاری کی جا رہی ہے جس نے دوست ممالک کو ساتھ  رہنے نہیں دیا، ایک کاغذ لہرا کر تماشہ بنانے کی کوشش کی ، بعد میں کہا گیا محسن نقوی نے سازش کی تھی ،
جب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوتی ہے تواس کو جانور کہتا ہے،  جب سپریم کورٹ خلاف فیصلہ دے تو چیف جسٹس کی تصویرپر جوتیاں مارتا ہے، جب عدالت بلاتی ہے تو کلاشنکوف اور اسلحہ لیکر عدالت پر حملہ آورہوتا ہے،  جب فارن فنڈڈ فتنے فساد کو مسلط کیا جاتا ہے تو ملک کا یہی حال ہوتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا خالی سیاستدان ملک ٹھیک نہیں کرتے، ملک ریاست ٹھیک کرتی ہے، جب سیاستدان ٹھیک کر رہا ہوتا ہے تو اس کیخلاف سازش کی جاتی ہے، یہ تماشہ ختم ہونا چاہئے، آئین کے ساتھ کھلواڑ ختم ہونا چاہئے، ملک کے اندربالکل الیکشن ہونے چاہئیں لیکن الیکشن کسی کی مرضی اوردھونس کی وجہ سے نہیں ہونے چاہئیں، آئینی طریقے سے ایک وقت میں پورے ملک میں الیکشن ہونے چاہئیں۔

رجسٹرار سپریم کورٹ اپنے عہدے سے دستبردار ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا دہشتگردی 2018 میں دفن ہوچکی تھی، 2018 کے بعد عمران خان کی وجہ سے دہشت گردی واپس آئی۔


متعلقہ خبریں