استعفی نہیں مقابلہ، اتوار کو ملک کا فیصلہ، سازش کامیاب نہیں ہونے دوں گا، عمران خان



وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت فیصلہ کن موڑ پر آ گیا ہے۔اتوار کو ملک کا فیصلہ ہو گا۔ فیصلہ ہو گا کہ ہم نے کس طرف جانا ہے، سب جانتے ہیں کہ آخری گیند تک مقابلہ کرتا ہوں۔ اتوار کو دیکھوں گا کہ کون کون اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے۔

قوم سے خطاب میں انہوں نے اتوار کو عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چوری کے پیسے سے ارکان کو خریدا جا رہا ہے،
میریٹ اور سندھ ہاؤس میں یہ تماشا چل رہا ہے، کوئی چھپی بات نہیں ہے سب کچھ قوم کے سامنے ہو رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کوئی نہیں ماننے والا کہ آصف زرداری، نوازشریف، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کوئی نظریاتی لوگ ہیں۔سب ان کو جانتے ہیں، صرف انہوں نے جو اپنے خلاف بیان دیے ہوئے ہیں وہ 20 سال زرا دیکھ لیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ کوئی نظریاتی نہیں۔

یہ جو ہو رہا یہ صرف اور صرف ضمیروں کو سودا ہو رہا ہے، یہ اپنے ملک کا سودا ہو رہا، یہ اپنے ملک کی خود مختاری کا سودا کر رہے ہیں۔مجھے ابھی بھی اپنے لوگوں سے امید ہے جو ہمارے لوگ اپنا سودا کر کے وہاں بیٹھے ہوئیے ہیں میں ابھی بھی آپ کو کہتا ہوں کہ ہمیشہ کے لیے آپ کے اوپر یہ مہر لگنے والی ہے نہ لوگوں نے آپ کو معاف کرنا ہے نہ آپ کو بھولنا ہے اور نہ جو لوگ آپ کو استعمال کر رہے ہیں نہ ان کو معاف کرنا ہے اور بھولنا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ آپ نے اپنے ملک کا سودا کیا، اور بیرون ملک کی سازش کا حصہ بنے اور اس حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی جو آزاد خارجہ پالیسی لے کر چل رہی تھی۔ یہ کوئی آپ کو معاف نہیں کرے گا۔ ہمارے برصغیر کی تاریخ کیا ہے میر جعفر اور میر صادق کون تھے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر بنگال کو غلام بنایا اور سراج دولہ کو مروایا۔

اوراپنی ذاتی مفادات کے لیے قوم کو غلام بنایا اور دوسرے نے ٹیپو سلطان سے غداری کی اور انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم کو غلام بنایا ، یہ لوگ موجودہ آپ کے دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں۔ باہر کی قوتوں کے ساتھ مل کر وہ تبدیلی لا رہے جو آپ کو کہتا ہوں یاد رکھیں کہ ساری زندگی یہ قوم آپ کو بھولنے نہیں دے گی، یہ وہ کام آپ کرنے جا رہے ہیں جو ہماری آنے والی نسلیں آپ کو معاف نہیں کریں گی۔آپ کو یہ بھی بتا دوں آج کہ آگر آپ کا یہ خیال ہے کہ سازش کو کامیاب ہونے دیں گے میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا۔

میرا یہ اپنی قوم سے وعدہ ہے کہ جب تک میرے میں خون ہے میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ میری زندگی میں تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا میں اپنے گھر میں رہتا ہوں اپنے اخراجات برداشت کرتا ہوں میرا تو کوئی کیمپ آفس نہیں ہے،میں نے تو کوئی آ کر نواز شریف کی طرح فیکٹریاں نہیں بنائی، نواز شریف نے سرکاری بینکوں سے پیسہ لے کر 18 فیکٹریاں بنائیں اور پھر قرضے معاف کرا لیے۔نہ میرے کوئی رشتہ دار سیاست میں ہیں۔

میں اپنے گھر میں رہوں گا اور رہتا ہوں لیکن جو اس قوم کے ساتھ غداری ہونے جا رہی ہے اس اتوار کو میں کہتا ہوں کہ آپ ایک ایک غدار کی شکل یاد رکھیں۔

یہ جتنا بھی اپنے لوگوں کو بتانے کی کوشش کریں کہ ایک دم ہمیں پتہ چلا کہ کیا ہوا کہ کتنا برا وقت گزر رہا تھا، لوگ آپ کی کوئی بات نہیں ماننے لگے، میں پھر سے دہراتا ہوں کہ یہ قوم نہ بھولے گی، نہ یہ آپ کو معاف کرے گی اور نہ آپ کے جو پیچھے ہیں ان کو معاف کرے گی۔

اور اگر آپ میں سے کسی کا یہ خیال ہے کہ عمران خان چپ کر کے بیٹھ جائے گا کسی خوش فہمی میں مت رہیں اللہ نے میرے میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ ساری زندگی میں نے مقابلہ کیا ہے۔

میں کوئی وہ آدمی نہیں جس نے بیٹھے بیٹھے پرچی دکھائی کہ مجھے تو پرچی میں پارٹی وراثت میں مل گئی یا میرا باپ کچھ تھا یا میں سریا لگاتے لگاتے جنرل جیلانی کے گھر پہنچ گیا اور کوئی وزارت مل گئی یا وزارت اعلی دے دی گئی۔

میں جدوجہد کر کے یہاں پہنچا ہوں مجھے مقابلہ کرنے آتا ہے میں کسی صورت اس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دوں گا۔

دھمکی آمیز مراسلہ کس ملک کی طرف سے آیا، وزیراعظم نے بتا دیا

وزیراعظم نے خطاب کے دوران مراسلہ بھیجنے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمیں 8 مارچ کو یا اس سے پہلے 7 مارچ کو ہمیں امریکا نے نہیں باہر سے ملک کا نام مطلب کسی اور ملک سے باہر سے میسج آتی ہے، میں یہ اسی لیے آپ کے سامنے میسج کی بات کرنا چاہ رہا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی آزاد ملک اور ہماری قوم کے خلاف ہے، اس میسج میں لکھا ہے کہ یہ جو عدم اعتماد جس کا ان کو پہلے سے پتا چل گیا کہ پاکستان میں عدم اعتماد آرہی ہے، اس کا مطلب یہ جو ہو رہا تھا ان کے پہلے سے ہی باہر کے لوگوں سے رابطے تھے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ  یہ آفیشل ڈاکومنٹ ہے جو ہمارے سفیر نوٹس لے رہے تھے،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر عمران خان رہتا ہے وزیراعظم تو ہمارے آپ کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے اور آپ کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، میرا اپنی قوم سے سوال ہے کہ کیا یہ ہماری حیثیت ہے، ہمیں کوئی باہر کا ملک اور کوئی وجہ بھی نہیں بتا رہا، بس ایک چیز بتا دی کہ عمران خان نے اکیلا روس جانے کا فیصلہ کیا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ روس جانے کا فیصلہ دفتر خارجہ اور عسکری قیادت کی مشاورت سے ہوا، ہمارا سفیر انہیں بتا رہا ہے کہ یہ مشاورت سے ہوا ہے اس نے کہا نہیں یہ صرف عمران خان کی وجہ سے ہوا، انہوں نے باقی لکھا جب تک وہ ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے، اصل میں وہ کہہ رہا ہے کہ عمران کی جگہ جو آئے گا تو ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت فیصلہ کن موڑ پر ہے، وزیراعظم عمران خان

خطاب کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ میرے پاکستانیو میں نے آپ سے بہت اہم بات کرنی ہے، اس لیے میں نے براہِ راست خطاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان اس وقت فیصلہ کن موڑ پر ہے، ہمارے پاس دو راستے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہے کہ کونسے راستے پر جانا ہے، سیاستدانوں کی زندگی دیکھیں تو ان کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، قائداعظم محمد علی جناحؒ بہت بڑے سیاستدان تھے، سارے ہندوستان میں سب سے بڑے وکیل سمجھے جاتے تھے، ان کی حیثیت تھی سیاستدان میں آنے کی، ہمارے ہاں سیاستدانوں کو ماضی میں کوئی نہیں جانتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وقت آ گیا کہ قوم بدمعاشی کیخلاف اٹھ کھڑی ہو، علی زیدی

ان کا کہنا تھا کہ  مجھے اللہ نے سب کچھ دیا، شہرت دی، ضرورت سے زیادہ پیسہ دیا، لیکن میں پاکستان کی پہلی نسل تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مجھ سے صرف پانچ سال بڑا ہے۔ میرے والدین غلامی کے دور میں پیدا ہوئے تھے، میرے والدین مجھے احساس دلاتے تھے کہ تم بہت خوش قسمت ہو۔

عمران خان نے کہا کہ پرویز مشرف دور میں مجھ سمیت تمام سیاستدانوں کو بریفنگ دی جس میں کہا گیا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نہ گئے تو امریکا ہمیں پتھر کے دور میں بھیج دے گا لیکن میں نے اس وقت بھی اس جنگ کے خلاف بیان دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہم اپنے لوگوں کو قربان کروائیں۔ 80ء کی دہائی میں ساری جہاد قبائلی علاقوں میں لڑی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ افغانستان میں غیر ملکی قبضہ ہو رہا ہے جس کے لیے ہم انہیں بچانا چاہتے ہیں، جنگ ہارنے کے بعد امریکا نے ہم پر پابندیاں لگا دیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دوران پاکستانیوں نے بہت قربانیاں دیں، اس دوران کسی بھی ملک نے اتنی قربانیاں نہیں دیں۔ قبائلی علاقہ پاکستان میں سب سے زیادہ پر امن علاقہ تھا، وہاں پر جرائم نہیں ہوتے تھے، وہاں پر دہشتگردی کیخلاف جنگ شروع کی گئی، ہمارے لوگ مارے گئے۔

مزید کہا کہ ہمارے لوگوں نے جہاد سمجھ کر پاکستان کیخلاف جنگ لڑنا شروع کر دی۔ پرانا جہادی بھی پاکستان کیخلاف ہو گئے۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل تھا۔

ہمیں کہا گیا کہ پاکستان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے امریکا افغانستان نہیں جیت پا رہا، ڈرون اٹیک ہوئے بہت نقصان ہوا، باجوڑ میں مدرسے کے بچوں پر ڈرون اٹیک ہوئے جس میں 80 بچے شہید ہوئے، دیگر علاقوں میں شادیوں پر بھی ڈرون حملے کیے گئے۔

میں جب کہتا تھا یہ جنگ ہماری نہیں تو لوگ ہمیں طالبان خان کہتے تھے، میں نے وزیرستان مارچ کیے، امریکا سمیت باہر سے لوگوں نے میرے مارچ کی حمایت کی۔

ہماری حکومتوں نے امریکا کا ساتھ دیا جس کے باعث وہ ہم پر حملہ کرتے تھے، مجھے حکومت ملی تو میں نے پہلے دن کہا تھا پاکستان کی پالیسی عوام کے مفاد میں ہو گی اور یہ پالیسی آزاد ہو گی۔ میری پالیسی، بھارت سمیت کسی کے خلاف نہیں۔


متعلقہ خبریں