خواجہ آصف پر کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا الزام ہے، سپریم کورٹ


اسلام آباد: سپریم کورٹ میں خواجہ آصف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ خواجہ آصف پر کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا الزام ہے، معزز جج نے استفسار کیا کہ کیا خواجہ آصف عہدے کا غلط استعمال نہیں کر رہے تھے؟

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے خواجہ آصف توہین عدالت کیس کی سماعت کی، دوران سماعت خواجہ آصف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ میں ایسا کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ  کیا تنخواہ خدمات پر دی جاتی ہے یا پھر بڑا دفتر تھا؟ خواجہ آصف جس کمپنی میں ملازم تھے اس کا پاکستان میں  کاروبار ہے؟  کیا تنخواہ میں اضافہ کارکردگی کی بنیاد پر ہوا؟

خواجہ آصف کے وکیل منیراے ملک نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے دبئی بینک اکاؤنٹ اور تنخواہ چھپانے کو بدنیتی قرار دیا، عدالت نے اس بنا پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق کیا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پہلے تنخواہ  نو ہزار، پھر 30 ہزار، اور پھر 50 ہزار درہم تھی جس کے متعلق تحریری جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا تنخواہ میں اضافہ اعلیٰ خدمات پر کیا گیا یا حکومتی ذمہ داریوں پر اضافہ کیا گیا؟ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا خواجہ آصف کا پاکستان میں کوئی کاروبار ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ان کا پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ پھر تو سرکاری عہدے سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔

منیر اے ملک نے بتایا کہ تحریری دلائل جمع کرا چکا ہوں، رٹ پٹیشن میں دبئی بینک اکاؤنٹ چھپانے کا الزام نہیں تھا، یہ الزام بعد میں جواب الجواب کے وقت لگایا گیا، غیر ملکی آمدن پر الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے، قانون کے مطابق طے شدہ معاملے پر دوبارہ درخواست  نہیں دی جا سکتی۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ  بتائیں کن حالات میں 62 ون ایف لگایا گیا؟ جس پر وکیل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ خواجہ آصف پر کرپشن کا الزام نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ان پرکاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا الزام ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ خواجہ آصف نے کاغذات نامزدگی میں تنخواہ صفر بتائی ہے۔

خواجہ آصف کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل کی غیر ملکی آمدن میں تنخواہ بھی شامل تھی، کاروباری آمدن زیادہ ہونے پر پیشہ کاروبار بتایا۔

منیر اے ملک نے بتایا کہ خواجہ آصف دبئی میں ہوٹل کا بزنس ختم کر کے پیسہ پاکستان لائے، 2013 سے پہلے خواجہ آصف کی غیر ملکی آمدنی ہوٹل اور ملازمت سے تھی تا ہم 2013 کے بعد غیر ملکی آمدن صرف تنخواہ سے ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ خواجہ آصف کو 2010 میں 3 کروڑ 40 لاکھ کی غیر ملکی ترسیلات موصول ہوئیں؟ خواجہ آصف کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل نے اس آمدن کو اپنے گوشواروں میں ظاہر کیا، ان  کا 1980 سے دبئی میں ہوٹل کا کاروبار ہے،  گوشواروں میں خواجہ آصف نے اپنی آمدن کے ذرائع  ظاہر کیے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ دبئی کا بینک اکاؤنٹ ظاہر نہ کرنے کے معاملے پر کیا موقف ہے؟

درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ 2010 میں خواجہ آصف نے دبئی بینک میں 5 ہزار درہم سے اکاؤنٹ کھولا جو 2015 میں بند ہو گیا تھا، الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں اس  اکاؤنٹ کو ظاہر کیا گیا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اس اکاؤنٹ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا؟

منیر ملک نے کہا کہ قانون کسی رکن اسمبلی کو ملازمت سے منع نہیں کرتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بھاری بھرکم تنخواہ اور اقامہ بلا وجہ تو نہیں دیا جاتا، کچھ تو فائدہ دیکھ کر ہی اتنا بھاری معاوضہ دیا گیا۔

منیر ملک نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت خواجہ آصف ایم این اے تھے نہ  وفاقی وزیر۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دوبارہ حکومت ملی تو ہو سکتا ہے خواجہ آصف پھر وفاقی وزیر ہوں۔

تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا تھا اور خواجہ آصف نے اپنی نااہلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔


متعلقہ خبریں