اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ سحر و افطار ٹرانسمیشن میں اچھل کود نہیں کرنے دیں گے۔ عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ مارننگ شوز اور رمضان ٹرانسمیشن میں اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی اسکالرز سے کم کوئی بات نہیں کرے گا۔
بدھ کے روز رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کیس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سماعت کے موقع پر عدالت میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا )،پاک سیٹ کے نمائندے اور درخواست گزار وقاص ملک موجود تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے آٹھ چینلز کو علیحدہ سے ہدایات دیں گے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اداروں کے خلاف بات سنسر ہوتی ہے تو دین کے خلاف کیوں نہیں ہو سکتی؟
عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ پاکستان میں انڈین چینلز کون آپریٹ کررہا ہے؟ رپورٹ پیش کی جائے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ جو بھارت سے دوستی کی بات کرے اسے سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا ہے۔
عدالت عالیہ کو ڈی جی آپریشنز پیمرا نے بتایا کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
پی بی اے کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پی بی اے چینلز پیمرا، آئین اور ضابطہ اخلاق کے تحت چل رہے ہیں۔ انہوں نے استدعا کی کہ عدالت کوئی جنرل حکم جاری نہ کرے ،پیمرا کو ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے ہدایات جاری کرے۔
عدالت میں پیمرا نے رپورٹ پیش کی کہ پاکستان کے کل 117 چینلز میں سے صرف تین چینل اذان نشر کررہے ہیں۔
عدالت عالیہ نے احکامات دیے کہ مغرب کی اذان سے پانچ منٹ پہلے درود شریف یا قصیدہ بردہ شریف نشر کریں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ عجیب تماشا لگا ہے، حمد، نعت اور تلاوت سب موسیقی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اچھل کود کا کلچر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے متعارف کرایا، باقی سب شاگرد ہیں۔ انہوں نے متنبیہ کیا کہ ساحر لودھی، فہد مصطفیٰ اور وسیم بادامی باز نہ آئے تو تاحیات پابندی لگادیں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ میچ پر تجزیہ کرانے کے لیے بیرون ملک سے ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، اسلامی موضوعات پر بات کرنےکے لیے کرکٹرز اور اداکاروں کو بٹھا دیا جاتا ہے۔