سینیٹ انتخابات: “امیدوار سے ووٹوں کی خریدو فروخت نہ کرنے کا بیان حلفی لیا جائے گا”


اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والے ہر امیدوار سے ووٹوں کی خریدو فروخت نہ کرنے کا بیان حلفی لیا جائے گا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے تحت کرانے سے متلعق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے ویجیلنس کمیٹی قائم کی ہے، ہر امیدوار سے ووٹوں کی خریدو فروخت نہ کرنے کا بیان حلفی لیا جائے گا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے اور اوپن بیلٹ سے انتخابات کرانے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔

اس پر بینچ کے ممبر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 226 صرف ووٹ ڈالنے کو خفیہ رکھنے کی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹنگ بے شک خفیہ ہو لیکن ہر پارٹی کی سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی بنتی ہیں، کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینٹ الیکشن کالعدم ہو جائیں گے؟

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کو متنازعہ بنا دیا، شاہد خاقان

الیکشن کمیشن  کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔ اوپن بیلٹ سے انتخابات کرانے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کا جواب  غیر تسلی بخش قرار دے دیا اور کہا کہ بات کی گہرائی سمجھیں، ووٹنگ بے شک خفیہ ہو لیکن سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی بنتی ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن  نے کہا کہ سیاسی جماعت کی سینیٹ میں نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہیں۔ کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا، یہ آپ کی ناکامی ہوگی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں،خفیہ رائے شماری میں ووٹ قابل شناخت نہیں ہوتا۔ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آزاد امیدوار جس کو چاہے ووٹ دے سکتا ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آزادانہ ووٹ نہ دیاتوسینیٹ انتخابات الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے۔

اس پرعدالت نےکہا کہ آپ تو آج سے قیامت تک سیکریسی کی بات کر رہے ہیں، ایسا نہ تو آئین و قانون میں لکھا ہے نہ ہی ہمارے فیصلوں میں، الیکٹرونک ووٹنگ بھی قابل شناخت ہے، سوال یہ ہے کس حد تک سیکریسی ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ووٹوں کی خریدو فروخت کے حوالے سے اس بار ادائیگیوں کاطریقہ کار بدل چکا ہے۔ اب ہنڈی کے ذریعے دبئی میں بھی ادائیگیاں ہو رہی ہیں۔ اب صرف عدالتی فیصلے کا انتظار ہے کہ وہ کہیں اوپن بیلیٹ انتخاب کا حکم جاری کرے۔

 

عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔


متعلقہ خبریں