کے ٹو: محمد علی سدپارہ اور ٹیم کا دوسرے دن بھی سراغ نہیں ملا

کے ٹو : محمد علی سدپارہ اور ٹیم کا دوسرے دن بھی سراغ نہیں ملا

اسکردو: عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی تلاش کے لیے جاری فضائی سرچ آپریشن میں دوسرے دن بھی کسی قسم کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ لاپتہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے صاحبزادے ساجد سد پارہ نے اپیل کی ہے کہ قوم ان کے والد محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا کرے۔

کے ٹو مشن: محمد علی سدپارہ ٹیم سمیت تاحال لاپتہ، سرچ آپریشن جاری

ہم نیوز کے مطابق کے ٹو کی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی تلاش میں ریسکیو اراکین نے ہیلی کاپٹرز سے  7 ہزار 800 میٹر بلندی پہ پرواز کی لیکن انہیں کسی بھی قسم کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے کیے جانے والے فضائی سرچ آپریشن میں نامور نیپالی کوہ پیما شرپا چنگ دوا اور ساجد سدپارہ نے بھی حصہ لیا۔

اس ضمن میں ذمہ دار ذرائع نے ہم نیوز کو بتایا کہ فضائی سرچ آپریشن کے بعد ساجد سدپارہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسکردو پہنچا دیا گیا ہے۔ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی سرمائی مہم جوئی ٹیم کا حصہ ہیں۔

ہم نیوز نے اس سلسلے میں بتایا ہے کہ ساجد سدپارہ کا اسکردو پہنچنے پر کمشنر بلتستان شجاع عالم اور ڈپٹی کمشنر اسکردو کریم داد چغتائی نے استقبال کیا۔

ساجد سدپارہ اپنے والد کے ساتھ مہم میں شامل تھے لیکن کے ٹو کی انتہائی بلندی کے قریب پہنچنے پر ان کے آکسیجن ریگولٹر میں خرابی آئی تو والد کے اصرار اور ہدایت پر وہ واپس نیچے آگئے تھے۔

سدپارہ 8 ہزار میٹر بلند 8 چوٹیاں سر کرنے والے پہلے پاکستانی

ہم نیوز کے مطابق ساجد پارہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے محمد علی سدپارہ سے آخری ملاقات بوٹلنیک پہ کی تھی اور وہیں سے انہیں اوپر کی جانب جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ وہ پر امید ہیں کہ ان کے والد نے کے ٹو کی چوٹی سر کرلی ہوگی۔

ساجد سدپارہ نے قوم سے اپیل کی ہے ان کے والد محمد علی سدپارہ سمیت ان کی ٹیم کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پانچ دسمبر کونکلے تھے اور 12 دسمبر کو کے ٹو کے بیس کیمپ پہنچے تھے۔

ہم نیوز کے مطابق ساجد سدپارہ کا کہنا ہے کہ کے ٹو کی مہم جوئی میں میں والد اور دو غیر ملکی بھی شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ 8200 میٹر کی بلندی پر آکسیجن سلنڈر خراب ہو گیا تو انہیں سانس لینے میں سخت مشکلات کا سامان کرنا پڑٓ۔

ایک سوال پر ساجد سد پارہ نے بتایا کہ اکیسیجن سلینڈر خراب ہونے پر میں واپس بیس کیمپ آگیا اور آخری بار میں نے والد کو 8200 میڑز کی بلندی پر بوٹل نیک پہ دیکھا تھا۔

ساجد سدپارہ کے مطابق شام کو وہ بیس کیمپ پر ان کا انتظار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد کے پاس واکی ٹاکی کا کوئی سامان نہیں ہے۔

محمد علی سدپارہ نےدنیا کی نویں بڑی چوٹی نانگا پربت ایک بار پھر سر کرلی

ہم نیوز کے مطابق ساجد سدپارہ نے کہا کہ اتنی بلندی پر دو دن کے بعد کوہ پیماؤں کے بچنے کی امید کم ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو قوم لاپتہ کوہ پیماؤں کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا کرے۔


متعلقہ خبریں