کراچی: سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کا متنازعہ پولیس افسر کے متعلق کہنا ہے کہ وہ قتل میں براہ راست ملوث نہیں۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس کی بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ تیار کرلی ہے جس میں راؤ انوار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اعانت جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ فون ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ مقابلے کے وقت علاقے کے اطراف میں موجود تھے۔
چھان بین کرنے والی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ نقیب اللہ کے ساتھ پکڑے گئے دو افراد نے راؤ انوارکی آواز کو پہچانا ہے۔
پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے راؤ انوار سے پوچھ گچھ کے لئے چھ سے زائد مرتبہ ملاقات کی۔
نقیب اللہ قتل کیس
نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی لاش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی۔ مشکوک پولیس مقابلے پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے کمیٹی بنائی گئی جس کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر آئی جی سندھ نے نقیب اللہ قتل کیس میں انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا تھا۔ نقیب اللہ کے دوستوں قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
تفتیشی کمیٹی نے تصدیق کی تھی کہ انہیں نقیب اللہ کے متعلق جو ریکارڈ دیا گیا وہ بھی جعلی تھا۔ اس دوران راؤ انوارکمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے فرار ہوگئے تھے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بار بار طلبی اور گرفتار نہ کرنے کی ضمانت کے باوجود راؤ انوار دو ماہ تک عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے راؤ انوار کو عدالتی حکم پر گرفتار کر کے کراچی پہنچایا گیا تھا۔