کورونا سے متعلق وزیراعظم کے بیانات سے قوم تذبذب کا شکار ہے، خواجہ آصف


اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ کورونا وبا اور لاک ڈاون سے متعلق وزیراعظم کے بیانات نے قوم کو تذبذب میں ڈالا ہوا ہے۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم خان کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے لاک ڈاوَن سے متعلق مختلف بیانات دیے ہیں۔  وزیراعظم کہتے رہے ہیں کہ جیسا چاہتا تھے ویسے لاک ڈاوَن نہیں ہوا۔

ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے متعلق اسد عمر نے کہا یہ خطرناک بیماری نہیں ہے۔ بتایا جائے حکومت کی آخر کار کورونا پالیسی کیا ہے؟۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس جانوروں میں بھی پھیلنے کا خوف، پاکستان میں ٹیسٹ شروع

خواجہ آصف نے کہا کہ گورنر سندھ ، وفاقی وزرا اور خود وزیراعظم کے بیانات واضح نہیں تھے۔ 17 مارچ کو وزیراعظم نے کہا کہ کورونا عام سا فلو ہے، آئے گا اور چلا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مارچ میں پھر کہا گیا کہ ملک لاک ڈاوَن کا متحمل نہیں ہو سکتا، لوگ بھوکے مر جائیں گے۔ اپریل میں کہا گیا کہ خوش خبری دیتا ہوں کہ جیسی امید تھی، کورونا کا ویسا پرزور نہیں تھا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ خدارا لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ نہ کھیلا جائے۔ ٹیسٹنگ استعداد بڑھانے کی بات ہوئی تھی۔ کچھ روز پہلے لوگوں کا جو رش بازاروں میں دیکھا گیا وہ حیران کن تھا۔

ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ 4 جون کو کہا گیا کہ ہمیں پتہ تھا کہ لاک ڈاؤن کھولے گا اور کورونا بڑھے گا۔ وزیراعظم نے کہا مشکل وقت آنے والا ہے عوام احتیاط کریں۔ اسپیکر صاحب آپ ہی وزیراعظم کی باتوں کا کوئی مطلب نکال دیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ سیکریٹری ہیلتھ نے کہا کہ لاہور میں کورونا سے 6لاکھ 78 ہزارافراد متاثر ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پنجاب گورنمنٹ کو 7 جون کو خط لکھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف لاہور میں 3 ملین متاثرہ لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ اس وبا پر ووٹوں کی سیاست نہ کی جائے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں نہ بتائیں بلکہ اوگرا کو دیکھیں یہ آپ کے ماتحت ہے۔ گزشتہ روز ایک وزیر نے کہا کہ اوگرا سو رہاہے اور پیٹرول پمپس پر قطاریں لگی ہیں۔ حکومت کا کوئی رخ اور کوئی سمت نہیں ہے، گزارا کیا جارہاہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بحران گورننس اور پالیسی کا ہے۔ پیپلزپارٹی اور ہماری قیادت کی گرفتار ی سے مسائل حل ہوتے ہیں تو ہم خود تھانے چلے جاتےہیں۔ کسی بھی شعبے کو لے لیں، کامیابی بتا دیں، دور دور تک کامیابیوں کا نام نہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ کیا ملک میں کوئی حکومت نام کی چیز ہے؟ حکومت کی کیا پالیسیاں ہیں؟۔ اداروں کی نجکاری کااعتراف کرتے ہیں۔ سندھ نے کچھ کرنا چاہا تو اس پر تنقید شروع کر دی گئی۔ اسٹیل ملز مشرف کے دور میں پرائیوٹائز ہوئی اسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہی آئی اے اور اس کے ہوٹلوں کی نجکاری کے بھی خلاف نہیں ہیں. حکومت ضرور نجکاری کرے مگر حالات کی بہتری کا انتظار کرے ۔ نجکاری شفافیت سے کریں اور اس وقت کریں جب مارکیٹ کے حالات بہتر ہوں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ معاون خصوصی زلفی بخاری کا نجکاری کے عمل میں شامل ہونا سوالیہ نشان ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ذولفی بخاری کس طرح سمندر پار پاکستانی بنے؟ نجکاری کمیٹی میں شامل دیگر ناموں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ زولفی بخاری کو جس نجکاری میں بھی ڈالیں گے اس پر سوالیہ نشان اٹھیں گے۔ ابھی تک کوئی فنانشل ایڈوائزر تعینات نہیں کیا گیا ۔


متعلقہ خبریں