سرکاری اسکولوں میں تعلیم معیاری نہیں، وفاقی وزیر کا اعتراف


کراچی: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو معیاری تعلیم میسر نہیں ہے۔

تین روزہ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں بیس لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، لیکن جو بچے سرکاری اسکولوں میں  پڑھ رہے ہیں انکی تعلیم معیاری نہیں ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ جو بچے اسکولوں میں ہیں ان میں سے بھی 75 فیصد بچے لکھ  پڑھ نہیں پاتے ہیں، اسکی وجہ تعلیم کا گرا ہوا معیار ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ یہ ذمہ داری ریاست کی ہے، ہم کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے اپنی تعلیم کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ کوئی بھی زمےداری لینے کو تیار بھی نہیں ہے۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہے لیکن ہم کوشش کرتے رہیں۔

مزید پڑھیں: کے پی میں تعلیمی ایمرجنسی کے تحت داخلوں کا سلسلہ جاری

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال خراب ہے۔ سترسال سے تعلیم کواہمیت نہیں دی گئی۔ تعلیم کا نوحہ میں کیا بیان کروں۔ دو ملین بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ تعلیم کی تباہی کے ہم سب ذمہ دارہیں۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ بدقستی سے پاکستان میں طبقاتی تعلیمی نظام مضبوط ہوا ہے۔ سرکاری اورپرائیوٹ اسکولزکے نصاب میں بھی فرق ہے۔ ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے جارہے ہیں۔ تعلیم کے حصول میں غربت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مدرسوں کا درس نظامی بالکل ہی مختلف ہے۔ ہم نے پہلی سے پانچویں کلاس کا یکساں نصاب تیار کر لیا ہے۔ اگلے سال اپریل سے پاکستان کے تمام پرائمری اسکولوں میں یکساں نصاب ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پچاس ہزارہنرمند زیرتربیت ہیں۔ ان کو احساس پروگرام کے تحت وضائف دیے جارہے ہیں۔ پچاس ہزارنوجوانوں میں چارہزارآرٹس اورکلچر کے طلبہ ہیں۔

شفقت محمود نے کہا کہ ہم ایک تعلیم نظام تشکیل اور متعارف کرانے کے بہت قریب ہیں۔ ہم نے طالب علموں کو ڈپلومہ کورسز کروانے پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ پانچ بلین روپے کا پروگرام ڈیزائن کیا ہے۔ چار سو سے زائد طالب علموں کو آرٹس کی بنیاد پر اسکالر شپ دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسکل ڈویلپمنٹ پروگرامز شروع کر رہے ہیں تاکہ بچے میٹرک تک تعلیم حصل کرنے کے بعد اپنے ہنر سے والدین کے ساتھ کما سکیں۔ میرٹ پر مبنی اسکالرشپ میں ٹیوشن فیس کے ساتھ ساتھ  گزر بسر کا وظیفہ بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں تین روزہ لٹریچر فیسٹیول ختم

شفقت محمود نے کہا کہ چھوٹے شہروں میں بھی ادبی میلے ہونے چاہیئں۔ آتے ہوئے ٹریفک جام میں پھنس گیا خوش ہوں کہ یہ رش علم و ادب سے محبت کرنے والوں کا تھا۔ پاکستان میں ایک جانب پی ایس ایل جاری ہے، ایک جانب لٹریچر فیسٹیول اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔

تین روزہ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں 80 سیشنزمنعقد ہونگے۔ فیسٹیول میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے 200 مندوبین شرکت کر رہے ہیں، جن میں سے 180 کا تعلق پاکستان جبکہ 20 کا تعلق امریکہ، برطانیہ،  جرمنی، کینیڈا اور اٹلی سے ہے۔

کراچی لٹریچر فیسٹیول میں 22 کتابوں کی رونمائی بھی ہو گی۔ فلم، ٹی وی تھیٹر اوردیگر فنون لطیفہ پر سیشنز منعقد کیے جائیں گے۔ فیسٹیول میں ڈسکاونٹ کتب میلے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں