سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ، جسٹس شاہد کریم



اسلام آباد:  خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویزمشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس شاہد کریم اور جسٹس نذر اکبر بھی شامل تھے۔

حکومت کی طرف سے پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ جب کہ سابق صدر پرویزمشرف کی طرف سے سلمان صفدر اور رضا بشیر بطور وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

حکومتی وکیل نے سنگین غداری کیس میں  شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا۔

علی ضیاء باجوہ نے مؤقف اپنایا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آ سکتی۔

خصوصی عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟ ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں۔

خصوصی عدالت کے جج نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں انکے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ اب گزر چکا ہے۔

خصوصی بینچ کے رکن نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، ہم آپ کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس وقار احمد سیٹھ نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاھتے ہیں یا نہیں۔

حکومتی وکیل علی ضیاء باجوہ نے جواب دیا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا کیوں کہ تیاری نہیں ہے۔ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں،  اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے اس کے تحت کارروائی چلانی ہیں۔

پرویزمشرف کے وکیل سلمان صفدر خصوصی عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نہ استغاثہ کو سن رہے ہیں اورنہ دفاع کو سن رہے ہیں تو کیس کو کیسے چلائیں گے۔

جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ ہم عدالتی مفرور کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

سابق صدر کے وکیل رضا بشیر نے عدالت کو بتایا کہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔

جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے۔

جج نے کہا کہ استغاثہ(حکومتی وکیل) اور آپ(سابق صدر کے وکیل) دونوں ہی مشرف کا دفاع کر رہے ہیں۔

عدالت نے آئین سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی اور تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔


متعلقہ خبریں