بلاگ: وظیفہ خوار قاتل


آج سے ٹھیک 68 برس قبل پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قتل کردیا گیا۔ اس دور کے اخبارات کے مطابق، نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ پنڈال میں 40-50 ہزار کا مجمع موجود تھا۔ خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔

انہوں نے ابھی “برادران ملت” کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے سید اکبر نامی شخص نے پستول نکال کر وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔ لیاقت علی خان گر پڑے۔ اگلے ہی لمحے تحکمانہ لہجے میں پشتو جملہ سنائی دیا “دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ۔”

یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی جس نے پشتو میں پہلے پوچھا اور پھر حکم دیا کہ گولی کس نے چلائی؟ مارو اسے!۔

دس سیکنڈ بعد نائن ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے ۔ اگلے پندرہ سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر گونجتے رہے۔ قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اس کا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔

لیاقت علی خان شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر اعظم کو ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔

ایم ایس وینکٹ رامانی کی کتاب “پاکستان میں امریکا کا کردار” کے اردو ترجمہ قاضی جاوید میں لکھا ہے کہ پاکستانی حکام نے قاتل سید اکبر کو ایک افغان شہری قرار دیا۔ افغان حکومت کے ترجمان نے پُر زور دعویٰ کیا کہ سید اکبر کو اس کی قوم دشمن سرگرمیوں کی بناء پر افغان شہریت سے محروم کیا جاچکا تھا اور انگریز حکام نے اسے صوبہ سرحد میں پناہ دے رکھی تھی۔

جلد ہی یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ انگریزوں نے برطانوی حکومت میں سید اکبر کا جو وظیفہ مقرر کیا تھا وہ حکومتِ پاکستان بھی ادا کرتی رہی تھی۔

روزنامہ”نیویارک ٹائمز” میں ایک ایسوسی ایٹڈ رپورٹ “حکومت کا وظیفہ خوار پاکستانی قاتل “کے عنوان سے شائع ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے انکشاف کیا کہ سید اکبر نامی وہ افغان شہری جس نے گذشتہ ہفتے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کا قتل کیا وہ حکومت پاکستان سے 450 روپے (155 ڈالر) کا ماہانہ الاؤنس حاصل کرتا تھا۔”

پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا قاتل سید اکبر، لیاقت باغ میں اسٹیج کے بالکل سامنے اس قطار میں بیٹھا تھا جہاں سی آئی ڈی والوں کے لیے جگہ مخصوص تھی۔کمپنی باغ کو لیاقت علی خان کے قتل کے بعد لیاقت باغ کا نام دے دیا گیا۔ اسی لیاقت باغ میں ٹھیک 56 برس، 2 ماہ اور 11 دن بعد پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا قاتل، حکومت کا وظیفہ خوار تھا۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کے قاتل کا وظیفہ کتنا تھا؟ یہ وظیفہ کس غیر ملکی حکومت نے مقرر کیا تھا اور پاکستانی حکومت یہ وظیفہ کب تک اد کرتی رہی؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے پاکستان میں بعض لوگوں کے “مستقل ماہانہ وظیفے” شروع ہو ئے جو آج 68 برس بعد بھی جاری ہیں۔


متعلقہ خبریں