مرکزی بنک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا



گورنر اسٹیٹ بنک  رضا باقر  نے آئندہ  دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان  کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فیصد اضافے کا اعلان کردیاہے۔

کراچی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگومیں گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر نے کہا کا شرح سود میں 100بیسز پوائنٹ اضافے کا فیصلہ کیا گیاہے جس سے شرح سود 31.25فیصد ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی اوسط شرح کچھ بڑھنے کا امکان ہےجو ہمارے اندازے سے بھی زیادہ ہے، تاہم رواں سال مہنگائی کی شرح 11سے 12فیصد رہنے کا امکان ہے۔

گورنر اسٹیٹ بنک سے سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ  طے کرنے سے پہلے ہم مارکیٹ کا سروے کرتے ہیں،اس بات کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ مارکیٹ والے کیا سو چ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ ماہ جو مہنگائی کا جو سلسلہ ہونے جارہا ہے تواسکا اس پالیسی ریٹ میں تعین کیا جاچکا ہے،پالیسی ریٹ کیلئے صرف مہنگائی کودیکھ کر فیصلہ نہیں کیاجاتا ۔ آج پالیسی ریٹ کو دیکھتے ہوئے آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے انویسٹمنٹ ڈالر میں رکھنی ہے روپے میں۔

اس وقت بنیادی شرح سود 12.25 فیصد ہے اور مئی 2018 سے اب تک شرح سود میں 5.75 فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ دوسری جانب جون 2019 میں مہنگائی کی شرح 8.9 فیصد رہی۔

روپے کی گرتی قدر اور مہنگائی میں مسلسل اضافے کے باعث ماہرین توقع کررہے ہیں کہ اسٹیٹ بنک موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شرح سود میں اضافہ کرسکتا ہے۔زیادہ تر کے مطابق شرح سود میں آدھا سے 1 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 20مئی کو پاکستان کے مرکزی بنک نے اپنی مانیٹری پالیسی میں آئندہ دو ماہ کیلیے شرح سود میں 1.5 فیصد اضافہ کردیا تھا۔ قبل ازیں  شرح سود 10.75 فیصد تھی۔

دو ماہ قبل پالیسی ریٹ میں 75 بیسزز پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا تاہم 20 مئی کو  پالیسی ریٹ میں 150 بیسززپوائنٹس کا اضاف کیا گیا۔

دو ماہ قبل پالیسی ریٹ 10 اعشاریہ 75 فیصد تھا۔ اس وقت شرح سود ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود تھا۔

یاد رہے جنوری 2019 میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 25 بیسز پوائنٹ کا اضافہ کرکے شرح سود 10.25 فیصد مقرر کردی گئی تھی۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کا کہنا تھا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اب بھی بلند ہے لیکن پچھلے 12 ماہ میں اس خسارے میں کمی ہو رہی ہے۔

گزشتہ مانیٹری پالیسی کے موقع پر سابق گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ پہلے چھ ماہ میں اسٹیٹ بینک سے حکومتی قرضوں میں اضافہ ہوا اور مالیاتی خسارہ گزشتہ سال کی نسبت بڑھا، جولائی تا نومبر بڑے صنعتی یونٹس میں 0.9 فی صد اضافہ ہوا۔

اُن کا کہنا تھا کہ معیشت کے چیلنجز بدستور موجود ہیں، مالی خسارہ بڑھ گیا ہے اور افراط زر میں اضافہ ہوا جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہورہا ہے مگر ابھی بھی زیادہ ہے، رواں مالی سال پہلی ششماہی میں افراط زر 6 فیصد رہی، گذشتہ مالی اسی عرصے میں افراط زر کی شرح 3.8 فیصد تھی۔

سابق اسٹیٹ بینک سربراہ کا کہنا تھا کہ ملک کو کرنٹ اکاونٹ خسارے کا سامنا ہے اور معیشت کو چینلجز درپیش ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر


متعلقہ خبریں