آسان موت‘ کے خواہش مندوں کی تعداد میں اضافہ’

آسان موت کے خواہش مندوں کی تعداد میں اضافہ

ہالینڈ: زندگی سے مایوس ہو کر موت کو گلے لگانے کے خواہش مندوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب ’تکلیف‘ کے بنا آسان موت کے حصول میں مدد دینے والے ہالینڈ کے کلینک کو بیرون ملک سے موصول ہونے والی درخواستوں میں اضافہ ہو گیا۔

ہالینڈ میں اپنی نوعیت کے واحد کلینک کا ’دعویٰ‘ ہے کہ وہ ایسے افراد کی مدد کرتا ہے جو موت کو رضاکارانہ طور پر گلے لگانے کے خواہش مند ہوتے ہیں البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ درخواست کنندہ پہلے پیش کی جانے والی سخت شرائط پوری کرے۔

سعودی عرب سے شائع ہونے والے مؤقر اخبار’اردو نیوز جدہ‘ کی رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کے شہر’دے ہیگ‘ میں واقع ’لیونس اینڈے کلینک‘ کا مؤقف ہے کہ جب سے 17 سالہ ’نوا پوتھوین‘ کی خود کشی کی کہانی منظر عام پرآئی ہے اس وقت سے اسے بیرون ملک سے متعدد ٹیلی فون کالیں موصول ہوئی ہیں جن میں کال کرنے والے نے درخواست کی ہے کہ اسے زندگی کے خاتمے میں مدد دی جائے۔

انٹرنیٹ پر کچھ عرصہ قبل ایک 17 سالہ لڑکی کی ’رضاکارانہ موت‘ کی کہانی وائرل ہوئی تھی جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ہالینڈ کے اسی کلینک نے اس کی مدد کی تھی۔

نوا پوتھوین نے بچپن میں جنسی زیادتی (ریپ) کے بعد اپنی ’ذہنی کیفیت‘ کے متعلق کتاب بھی لکھی تھی۔ 17 سالہ نوا پوتھوین کے متعلق حکومت اور خاندان کا یہ مؤقف سامنے آیا تھا کہ اس کی موت کھانا کھانے اور پانی پینے سے انکار کی وجہ سے ہوئی تھی۔

عالمی خبررساں ایجنسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں لیونس اینڈے کلینک کے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) اسٹیون پلیٹر نے کہا کہ ان کے کلینک کا مقصد دنیا بھر سے ’آسان موت‘ کے طلب گاروں کی ’سیاحت‘ کو ہالینڈ میں فروع دینا نہیں ہے کیونکہ یہ ایسا نہیں ہے کہ آپ پیر کو آ ئے اور جمعہ کو رضاکارانہ موت ہو گئی۔

اردو نیوز جدہ کے مطابق ہالینڈ ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ’رضاکارانہ‘ خود کشی یا موت ’قانونی‘ ہے۔ قانوناً 12 سال سے زائد عمر کے افراد اس کا انتخاب کرسکتے ہیں لیکن اس سے قبل سخت شرائط پوری کرنا ہوتی ہیں۔

2002 میں بنائے گئے قانون کے مطابق ہالینڈ کے 16 سال کی عمر تک کے شہریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ رضاکارانہ خود کشی کے لیے والدین کو رضامند کریں البتہ 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد از خود یہ فیصلہ کرنے کے مجاز قرار دیے گئے ہیں۔

اردو نیوز کے مطابق پوتھوین کے متعلق غلط رپورٹس نے عالمی ردعمل کو جنم دیا۔ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پوپ فرانسس نے بھی اس کی موت اور رضاکارانہ خودکشی کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر ٹوئٹ کیا تھا۔ ہالینڈ کے شہر دے ہیگ میں قائم  لیونس اینڈے کلینک اس وقت پوری طرح سے دنیا کی نگاہوں میں آیا تھا۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق کلینک کے ترجمان ایلکے سوارٹ نے  بتا یا ہے کہ ہمیں بیرون ملک سے ایک ہفتے میں ایک سے دو درخواستیں ملتی ہیں لیکن گزشتہ جمعرات کے دن غیر معمولی طورپر یک دم 25 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

ہالینڈ کے اس کلینک کے مطابق وہ موت میں مدد اپنے کلینک کی حدود میں فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے نیٹ ورک میں شامل 140 ڈاکٹرز اور نرسیں پورے ملک میں اس مقصد کے لیے پھیلے ہوئے ہیں۔


متعلقہ خبریں