گرے ٹریفکنگ کی روک تھام: ٹھیکہ لینے والی کمپنی اسرائیلی تو نہیں؟


ملک میں گرے ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے سیکیورٹی سسٹم کا ٹھیکہ لینے والی کمپنی اسرائیلی تو نہیں ہے؟سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ ڈویژن کوتشویش لاحق ہوگئی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی حکام کو معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کردی گئی ہے۔

اسلام آباد سیف سٹی کیمروں کی تنصیب سے متعلق ریکارڈ، نادرا حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کوبھی طلب کرلیا گیاہے۔

گرے ٹریفکنگ سیکیوٹی سسٹم کا ٹھیکہ اسرائیلی کمپنی کو دینے،اسلام آباد میں سیف سٹی کیمروں کی کارکردگی اور دوردراز علاقوں میں موبائل سگنلز کی عدم دستیابی سمیت دیگر اہم معاملات پرسے متعلق سینیٹ  کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود کی زیر  صدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔

اجلاس کے دوران طلحہ محمود نے کہا کہ لائسنسز کی تجدید کو موبائل کوریج سے مشروط ہونا چاہیے۔ملک کے دوردراز علاقوں میں اگر موبائل کی کوریج نہیں ہوگی تو لوگ کیسے جرائم اور حادثات سےمحفوظ رہینگے؟ کسی ہنگامی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے موبائل سروسز نہ ہونے کے باعث مناسب انتظام نہیں ہے۔

سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کمپنیوں کو پابند کریں کہ نفع و نقصان کا رونا نہ روئیں، اگر یہ موبائل کمپنیاں نقصان میں ہیں تو یہاں کیا کر رہی ہیں؟

طلحہ محمود نے کہا کہ سائبر سیکیورٹی کا معاملہ انتہائی اہم ہے۔ کیا ’سینڈ وائن‘ نامی کمپنی ترکی میں امریکہ کے لیے جاسوسی نہیں کرتی رہی؟ فرانسسکو پارٹنرز نے این ایس اے کے شیئر خریدے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک کمپنی شیئر ہولڈر ہے اور اس کے پاس کوئی معلومات نہ ہوں؟

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ ڈویژن نے پی ٹی اے سے  ایک ہفتے میں کمپنی کا ریکارڈ مانگ لیا۔

پی ٹی اے حکام نے بتایا کہ ویب مانیٹرنگ کے لیے پی ٹی اے نے کسی اسرائیلی کمپنی کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا ۔  گرے ٹریفک پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے،حکومت نے گرے ٹریفک مانیٹرنگ کے کیے آپریٹنگ کمپنیوں کو مشترکہ سسٹم لگانے کے لیے کہا ہے۔

سرمایہ کاری ان کمپنیوں کی ہے جبکہ سسٹم امریکہ کی ایک کمپنی لگائیگی ۔ حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ  سیکیورٹی آڈٹ کے بعد ہی اس منصوبے پر کام شروع ہوگا۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ہمارے ڈیٹا کی سیکیورٹی ایک غیر ملکی کمپنی کو نہیں ملکی کمپنی کے پاس ہونی  چاہیے،ڈیٹا بھیجنے کے لیے کسی مشین کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس پر اعظم سواتی بولے کہ ترکی، سعودی عرب اور انڈیا سمیت 150 ملکوں میں یہ کمپنی کام کر رہی ہے۔مخالف کمپنیوں نے معاملہ اٹھایا کہ یہ اسرائیلی کمپنی ہے۔

سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ اس کمپنی کے شیئرز فرانسسکو نامی کمپنی نے لیے ہیں اورفرانسسکو کی ہی این ایس او کمپنی نے ڈیڑھ ارب صارفین کا ڈیٹا چوری کیا ہے۔

پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے مغربی قوتیں اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سینڈ وائن کا این ایس او کے ساتھ کوئی تعلق نہیں سینڈ وائن کا فرانسسکو کمپنی کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہے،جو کمپنیاں اس کی مخالفت کر رہی ہیں وہ بھی سینڈوائن کا ایکویپمنٹ ہی استعمال کررہی تھیں۔

سنیٹر مشتاق احمد نے استفسار کیا کہ سینڈ وائن کے بارے میں وکی پیڈیا پر ہے کہ اس نے ترکی کے خلاف جاسوسی کی۔صرف میں نہیں دیگر اراکین کو بھی اس معاملے پر تشویش ہے۔یہ کمپنی امریکہ کے لیے ترکی میں رہ کر جاسوسی کرتی رہی ہے۔

پی ٹی اے حکام نے قائمہ کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ گرے ٹریفکنگ سسٹم لگانے سے پہلے سیکیورٹی آڈٹ ہوگا۔۔ سیکورٹی خدشات ہوئے تو متعلقہ کمپنی سسٹم نہیں لگاسکے گی۔

یہ بھی پڑھیے:موٹر وے پر جانوروں کی وجہ سے حادثات پر سینیٹ کمیٹی کو تشویش

قائمہ کمیٹی نے سیف سٹی منصوبے سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئےنادرا حکام اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کوبھی طلب کرلیا۔


متعلقہ خبریں