اسلام آباد: سینئر صحافی محمد مالک نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو وزیربدلیں، حالات خود ہی بدل جائیں گے۔
ہم نیوز کے پروگرام’بریکنگ پوائنٹ ود مالک‘ میں ان کا کہنا تھا کہ جو تبدیلیاں لائی گئی ہیں ان کے لیے جنوری سے ہی کوششیں جاری تھی۔ آئی ایم ایف کی پالیسیز کو مکمل طور پر نافذ کرنا ہو گا۔
محمد مالک نے سوال اٹھایا کہ ایسا شخص جو آئی ایم ایف اور ورلڈ کے ساتھ کام کر چکا ہو وہ ان کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کام کرے گا یا پاکستان کیلئے؟
پروگرام میں شریک ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد زبیر نے کہا کہ پہلی بار اسٹیٹ بینک کے سربراہ کے لیے رضا باقر جیسے شخص کا نام سامنے آ رہا ہے، وہ اس عہدے کے لیے نہایت موزوں شخص ہیں۔ پاکستان نے اپنے آپ کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے تو آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ملکی برآمدات بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ پاکستان کی ٹیم کو اچھا پروگرام بنانا ہو گا، حفیظ شیخ نجکاری کے ماہر ہیں، وہ مشیرخزانہ کیلئے موزوں امیدوار نہیں ہیں۔
محمد زبیر کی رائے تھی کہ اگر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے تو معیشت بیٹھ جائے گی۔ جس ملک نے صحیح پروگرام اپنایا وہ دوسری بار آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا۔ حکومت کو پہلے دن ہی آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 20 فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے جس کی ذمہ دار تمام حکومتیں ہیں، آئی ایم ایف تو کہتا ہے آپ خرچ اور آمدن برابر کریں۔ حکومت چوری کی قیمت پوری کرنے کے لیے قیمت بڑھا دیتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ گیس و بجلی کی قیمت بڑھانے کے بجائے بلی کی چوری روکے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ رضا باقر اس صورتحال میں موزوں امیدوار ہیں۔ جب تک ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل رہیں گے، شرح ترقی کم رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے شرح سود بڑھائی تو نوکریاں نہیں ملی گی کیوںکہ سرمایہ کاری نہیں بڑھے گی، مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے غریب کی زندگی پر بہت برے اثرات پڑیں گے۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ عمران خان آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے پوری آئی ایم ایف پاکستان لے آئے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو ہٹا دیا گیا ہے جو بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیوروکریٹس نیب سے ڈرتے ہیں اگر آپ نے آگے بڑھنا ہے تو ان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا، حکومت کو چاہیئے غیر یقینی کی صورتحال ختم کرے اور متبادل منصوبہ بھی لائے تاکہ اپوزیشن کی حمایت مل سکے۔