سپریم کورٹ نے بحریہ ٹائون کی 460 ارب کی آفر قبول کرلی



سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون کیس کی سماعت میں عدالت نے بحریہ ٹائون کی 460ارب روپے کی پیشکیش قبول کرلی ۔ بحریہ ٹاون کراچی پراجیکٹ پر 460 ارب 7 سالوں میں ادا کرے گا۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےکیس کی  سماعت کی۔ بحریہ ٹائون کے وکیل نے کہا مدت سات سال کی بجائے ساڑھے سات سال کرلیں۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا ساڑھے 7 سال میں ادائیگی کرنی ہے تو پھر نیب سے بات کرلیں۔ سپریم کورٹ نے نیب کو بحریہ ٹاون کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے بھی  روک دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ بحریہ ٹاون ڈاون پیمنٹ کی مد میں 25 ارب ادا کرے گا، 25 ارب 27 اگست تک ادا کرنا ہوں گے۔آخری تین سال کی ادائیگی پر 4 فیصد سود بھی دینا ہوگا۔

عدالت نے نیب سے کراچی کیس سے متعلق دستاویزات بھی طلب کرلیں۔

بحریہ کے وکیل نے استدعا کی کہ بحریہ ٹاون سے ملنے والی رقم سندھ حکومت کو دی جائے۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا ہمیں پتہ ہے پیسے کہاں دینے ہیں۔
پیسے ابھی آئے نہیں جھگڑا پہلے شروع ہوگیا۔ بحریہ ٹاون کی سروسز عمارتوں کو بطور سکیورٹی رکھا جائیگا،

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ٓپ کیا کہتے ہیں جن لوگوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ان کے خلاف ریفرنس دائر نہ ہو؟
جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ معاملہ بحریہ ٹاون کے ساتھ طے پایا ہے۔ نیب دوسرے ملوث افسران کے خلاف ریفرنس فائل کرنا چاہتا ہے تو درخواست دے۔ درخواست  آئے گی تو دونوں جانب کے فریقین کو سن کر فیصلہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے:بحریہ ٹائون کی سپریم کورٹ میں 450ارب روپے کی آفر،فیصلہ محفوظ

یاد رہے کہ 13مارچ کو ہونے والی سماعت میں بحریہ ٹائون کراچی نے آفر 440 سے بڑھا کر 450 ارب کر دی تھی۔  عدالت نے بحریہ کراچی کی پیشکش پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھااور کہا تھا کہ فیصلہ 21 مارچ کو ہوگا۔

بحریہ ٹائون کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ پانچ سال 2.25 ارب روپے ماہانہ ادا کرینگے، بقیہ رقم تین سال میں ادا کی جائے گی۔ بحریہ ٹائون نے نیب کیسز ختم کرنے اورزمین منتقلی کی فیس اور ٹیکس استثنی کی استدعا بھی  کی تھی ۔
بحریہ ٹائون کے وکیل نے کہاتھا کہ بیس ارب روپے کی ڈائون پے منٹ، اقساط کا 30 فیصد بھی جمع کراتے رہینگے۔ چڑیا گھر، پارکس اور سینیما بطور گارنٹی پیش کرینگے۔

بنچ کے سربراہ جسٹس عظمت سعید  نے ریمارکس دیے تھے کہ زمین منتقلی کے قانون کو معطل نہیں کر سکتے۔ جو ٹیکس اور سرکاری فیس بنتی ہے وہ دینا ہوگی۔

ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ بحریہ سے متعلق مقدمات  میں سندھ کی حکومتی شخصیات اور افسران کےکیسز بھی ختم کیےجائیں ۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا تھا کہ ڈیل بحریہ سے ہو رہی ہے سندھ حکومت سے نہیں۔ یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت پیشکش قبول کر لے گی۔


متعلقہ خبریں