’سندھ کے اسکولوں میں بچوں کی جگہ بھینسیں پڑھ رہی ہیں‘


کراچی: سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ سندھ میں بدعنوانی انتہا کو چھو رہی ہے، اگر کوئی دیانت دار اور قابل شخص پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین ہو تو پانچ سال ایک کے بعد دوسری جے آئی ٹی بنانی پڑے گی۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی چیئرمین شپ حزب اختلاف کو نہیں دینا چاہتی حالانکہ میثاق جمہوریت میں پی اے سی قائد حزب اختلاف کو دینے کا عہد کیا گیا تھا، اس پر بینظیر بھٹو نے بھی دستخط کیے تھے۔

فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ سندھ کے اسکولوں میں بچوں کی جگہ بھینسیں پڑھ رہی ہیں۔ صحت کا شعبہ برباد ہو چکا ہے، سانگھڑ کے اسپتال میں 20 اسپیشلسٹس کی جگہ ہے اور وہاں صرف ایک اسپیشلسٹ کام کر رہا ہے۔

پینے کے پانی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 2008 میں کراچی میں پانی کی آخری سکیم آئی تھی۔ اس کے بعد ابھی تک اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ یہاں 1984 کے بعد کوئی ماسٹر پلان منظور نہیں ہوا، یہ شہر کسی منصوبہ بندی کے بغیر پھیل رہا ہے۔

کراچی میں سیورج کے پانی کے بارے میں ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 2006 سے کراچی کے تمام سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بند تھے، اس وقت 300 ملین گیلن سیوریج کا پانی سمندر میں ڈالا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے سمندری آلودگی پھیل رہی ہے، حتی کہ پاکستان نیوی کے جہازوں کی عمر بھی اس سے کم ہو رہی ہے۔

کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بارے میں انہوں نے انکشاف کیا کہ اس شہر میں 2004 میں آخری بار نئی بسیں آئیں۔ یہاں 25000 بسوں کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت صرف 4623 بسیں چل رہی ہیں۔ منی بسوں کو ملا لیا جائے پھر بھی یہ تعداد بمشکل 11000 ہوتی ہے۔

فردوس شمیم نقوی نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ گرین لائن پراجیکٹ خود مکمل کرے گی، مارچ 2020 تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ قواعد کی پرواہ نہیں کی گئی، بدعنوانی اس سے مختلف چیز ہے۔

پروگرام میں شریک پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیربلدیات سعید غنی کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی صوبائی اسمبلیوں میں پی اے سی کی چیئرمین شپ حزب اختلاف کو نہیں دی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف میثاق جمہوریت کو نہیں مانتی، اسے حزب اختلاف کی چیئرمین شپ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پی اے سی کا چیئرمین بہت بااختیار ہوتا ہے، اس کمیٹی کے اراکین کے پاس بھی بہت اختیارات ہوتے ہیں۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے سندھ اسمبلی میں نو کمیٹیاں مانگی تھیں، ان کا یہ مطالبہ تسلیم کیا گیا تو انہوں نے پی اے سی کی چیئرمین شپ مانگ لی ہے، اس معاملے پر ہمارے درمیان اختلاف موجود ہے۔

کراچی کو پانی کی سپلائی کے منصوبے کے فور کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس پر 70 ارب روپے خرچ ہوں گے، اس پر بہت سا کام مکمل ہو چکا ہے۔ شہر میں پانی کے پرانے پمپ موجود ہیں جو پورا پانی نہیں اٹھا سکتے، اب نئے پمپ لگائے جا رہے ہیں۔

کراچی کو نظرانداز کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس شہر کے لیے ہر بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے رقم مخصوص کی جاتی ہے۔ کراچی کا شیئر سندھ کے کسی بھی ڈویژن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

رہنما پیپلزپارٹی کے مطابق انہوں نے خود ایک بار بتایا تھا کہ کراچی کے لیے 10 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے 220 کے قریب منصوبوں پر کام ہو رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایس تھری کا منصوبہ دسمبر 2019 تک مکمل ہو جائے گا اس کے ذریعے 480 ایم جی ڈی پانی صاف ہو کر سمندر میں جائے گا۔

بلدیاتی اداروں کے اختیارات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان اختیارات کے کم ہونے کا تاثر درست نہیں کیونکہ انہیں مزید چھوٹی سطح پر پھیلا دیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں