اسلام آباد: نامور ماہر معاشیات شبر زیدی کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹس پاکستان کے لیے نہیں بلکہ دیگر ممالک کے مخصوص حلقوں کے لیے ہوتی ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی رپورٹس معیشت سے زیادہ سیاست کی عکاسی کرتی ہیں۔
ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا ُاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں اسٹیٹ بینک بورڈ مکمل طور پر خودمختار نہیں ہوتا، یہاں وزارت خزانہ کی طرف سے نامزدگیاں ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت آڑھتی یعنی تاجر چلا رہے تھے، اسٹاک مارکیٹ، جائیداد اور دیگر شعبوں میں تجارت ہو رہی تھی، یہ سلسلہ مزید نہیں چل سکتا تھا۔ ایسی معیشت چل ہی نہیں سکتی جس میں ٹیکس کا زیادہ انحصار درآمدات پر ہو اور جہاں درآمدات 60 ارب ڈالر اور برآمدات 20 ارب ڈالر ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں شبر زیدی کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے نتائج تین سالوں تک سامنے آئیں گے، اس دوران نام نہاد معاشی ماہرین روز ٹی وی پر آ کر اضطراب پھیلائیں گے اور یہ حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا ایک خالصتاً معاشی معاملہ ہے لیکن اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف ہماری معیشت کو درست نہیں کر سکتی کیونکہ وہ ہماری 300 ارب ڈالر کی معیشت کی بنیاد پر بات کریں گے جبکہ ہماری حقیقی معیشت 450 ارب ڈالر ہے۔
شبر زیدی کا نکتہ نظر تھا کہ اگر پاکستان کو اپنی برآمدات 50 ارب ڈالر کرنی ہے تو اس کے لیے مغربی ممالک کی منڈیوں میں جانے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں، اس لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم درآمدات کے خدمات کے سیکٹر کو محدود کر کے 10 ارب ڈالر سالانہ بچا سکتے ہیں۔
ٹیکس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس کے نظام کو پولیس کے ادارے کی طرح چلاتے رہے۔ معیشت کو دستاویزی شکل دینا ضروری ہے۔ آمدنی اور اثاثوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اگلے دو تین سال ٹیکس کی آمدنی نہیں بڑھ سکے گی۔
ہمسائیہ ملک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں اس وقت ساڑھے چھ کروڑ ٹیکس دہندگان موجود ہیں جبکہ پاکستان میں 15 لاکھ ہیں، ہندوستان پچھلے پانچ سال میں ساڑھے چار کروڑ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا ہے،
حکومت برآمدات پر انحصار بڑھانا چاہتی ہے، فیصل بنگالی
پروگرام میں شریک ماہر معاشیات فیصل بنگالی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے اخراجات جس طرح کم کیے ہیں اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ حکومت کا طویل المدت منصوبہ برآمدات پر انحصار بڑھانا اور درآمدات پر کم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے درآمدات پر ٹیکس کے ذریعے آمدنی حاصل کرنے کے بجائے مقامی کاروبار اور صنعت کو ترقی دے کر اس سے خزانہ بھرنے کا اچھا قدم اٹھایا ہے، اس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا۔
فیصل بنگالی نے کہا کہ موجودہ حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، توانائی کا بحران اور گردشی قرضے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ جس قسم کے پاور پلانٹ کے معاہدے ہم کر چکے ہیں وہ تباہ کن ہیں۔ بجلی کی جسقدر ادائیگیاں ہم نے اگلے تین چار سالوں میں کرنی ہیں وہ پچھلے ستر سال سے زیادہ ہیں۔
آئی ایم ایف کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے چھ سات ارب ڈالر کا قرض مل سکتا ہے اور وہ بھی تین چار سالوں پر محیط ہو گا۔ اس سے ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے لیکن اس کی وجہ سے دیگر ادارے پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات کا آغاز تو ہو چکا ہے لیکن اس کی رفتار ابھی سست رہے گی۔