نام ای سی ایل سے نکالا جائے، رائو انوار کی سپریم کورٹ میں درخواست

سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف انکوائری، تحقیقات میں تبدیل

فوٹو: فائل


اسلام آباد: نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس پی رائو انوار نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی ہے جس میں استدعاء کی گئی ہے کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے کیونکہ وہ عمرہ ادا کرنا چاھتے ہیں۔

درخواست میں وفاقی اور سندہ حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 23 جنوری 2018 کے حکم نامے کے بعد نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔

رائو انوار کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹرائل کورٹ سے قانون کے مطابق ضمانت پر رہائی حاصل کی ہے اور ٹرائل کورٹ ہی  کے حکم پر ان کا پاسپورٹ ضبط کیا گیا۔

سابق پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بچے ملک سے باھر رہائش پزیر ہیں اور وہ پاکستان نہیں آسکتے کیونکہ ان کو جان کا خطرہ ہے۔

ان کا کہ کہنا تھا کہ وہ ٹرائل کورٹ میں ہر پیشی پر پیش ہوتے ہیں اور مستقبل قریب میں اس کا فیصلہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔

رائو انوار نے کہا کہ میں بیان حلفی دیتا ہوں کہ ملک سے باہر ہونے کے باوجود ٹرائل کورٹ میں پیش ہوتا رہوں گا، میرے بیرون ملک جانے سے ٹرائل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔

نقیب اللہ قتل کیس

نقیب اللہ محسود کو رواں سال 13 جنوری کو کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی لاش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی۔ مبینہ مقابلے کے بعد راؤ انوار نے نقیب کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔

نقیب کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں قتل کے خلاف بہت زیادہ شور مچا اور اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا گیا جس پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی گئی۔

مذکور کمیٹی نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصور قرار دیا اوران کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل  قرار دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا اور بھتہ نا دینے پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نقیب اللہ کے دوستوں قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا۔

کمیٹی کے سامنے نقیب کا پیش کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا۔

کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے بھی راؤ انوار کے قتل کا ازخود نوٹس لے لیا جس کے بعد راؤانوار اور ان کے ٹیم کے ارکان روپوش ہو گئے اور بار بار سپریم کورٹ کی طلبی کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

دو ماہ تک مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ کو  سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے راؤ انوار کو عدالتی حکم پر سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر کے کراچی پہنچایا گیا۔


متعلقہ خبریں