راولپندی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 15 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سزائے موت پانے والے دہشت گرد تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے، معصوم شہریوں کے قتل اور کرسچین کالونی پشاور حملے میں ملوث ہیں۔
آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں مجموعی طور پر 34 افراد شہید ہوئے، شہید افراد میں مسلح افواج کے 21 اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 9 اہلکار شامل ہیں۔
دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں نے سزا موت سنائی جبکہ 20 مجرموں کو قید کی سزا بھی سنائی۔
سزائے موت پانے والے دہشت گردوں میں حمید الرحمان، سید علی، ابرار، فدا حسین، رضا اللہ، رحیم اللہ، عمر زادہ، امجد علی، عبدالرحمن، غلام رحیم، محمد خان، رحیم اللہ ولد نورانی گل، راشد اقبال، محمد غفار، رحمان علی شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں نے دوران ٹرائل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور تمام دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے۔
فوجی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات
آئی ایس پی آر سے جاری آج ایک اور بیان میں بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے اب تک وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں کو سماعت کے لیے 717 مقدمات بھجوائے جن میں سے 546 مقدمات فوجی عدالتیں طے کر چکی ہیں۔
ان 546 فیصلوں میں سے 310 کیس سزائے موت کے تھے اور 234 مخطلف قید کی سزائیی تھیں جبکہ 2 ملزمان کو بری بھی کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سزائے موت پانے والے 310 ملزمان میں سے اب تک 56 کو پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ باقی ملزمان نے اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔
16 دسمبر 2016 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کے بعد جنوری 2015 میں ایک آئینی ترمیم کے ذرائر فوج عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
فوجی عدالتوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ کسی بھی عام پاکستانی کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت سزا سنا سکتی ہیں
حکومت نے 7 جنوری 2017 کو فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی مزید توسیع کی تھی۔