اسلام آباد: بھارتی ریاستوں کے انتخابی نتائج نے مودی سرکار کی ’اقلیت دشمن‘ پالیسی کو نہ صرف مسترد کردیا ہے بلکہ حکمران جماعت بی جے پی کی اقتدار سے رخصتی کا پروانہ بھی تھما دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق انتخابی نتائج میں شکست کی اصل وجہ مودی کی انتہا پسندانہ پالیسی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق چھتیس گڑھ میں بی جے پی سے کانگریس کا اقتدار چھیننا اور راجستھان میں بھی اکثریت حاصل کرنا دراصل 2019 میں ہونے والے انتخابات کا ’اصل اسکرپٹ‘ ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی شمالی ریاست مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس انتخابی تنائج کے حوالے سے ہونے والی دوڑ میں آگے دکھائی دے رہی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق جنوبی ریاست تلنگانہ میں علاقائی جماعت ٹی آر ایس کامیاب رہی ہے جو غیر متوقع نہیں ہے۔ انتخابی نتائج کے مطابق کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں کا دوسرا نمبر ہے جب کہ بی جے پی ’ذکر‘ میں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں واقع ریاست میزورم میں بھی علاقائی جماعت میزو نیشنل فرنٹ نے اکثریت حاصل کی ہے اور کانگریس دوسرے نمبر پر رہی ہے۔
بھارت کی سابق حکمران جماعت کانگریس تقریباً 15 سال اقتدار سے باہر رہی ہے۔ اب اس کی واپسی راہل گاندھی کی قیادت میں ہورہی ہے۔
بھارتی ریاستوں کے انتخابی نتائج سے اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جو 2014 میں اپنے کارکنوں سے ‘کانگریس مکت بھارت’ کا وعدہ کیا تھا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا تھا کہ 2024 تک ملک کے سب سے بڑے ’عہدے‘ کے لیے جگہ خالی نہیں ہے، محض ’مفروضہ‘ اورہوا میں اچھالا گیا ایک ’جملہ‘ ہی تھا۔
عام آدمی پارٹی کے رہنما اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئیٹر‘ پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے‘۔
آئندہ سال منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کو ’سیاسی پنڈت‘ خاصی اہمیت کا حامل گردان رہے ہیں۔
بھارتی انتخابی تاریخ شاہد ہے کہ شمالی ریاستوں میں سیاسی مقبولیت گرتے ہی کانگریس کا سیاسی زوال شروع ہوا تھا۔
بی جے پی نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بیشترنشستیں اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ سے جیتی تھیں۔ یہ سب بھارت کی شمالی ریاستیں ہیں۔
درج بالا پانچ میں سے تین ریاستوں میں کانگریس کی واپسی بی جے پی کے لیے یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کانگریس کی مضبوط انتخابی پوزیشن سے راہل گاندھی کی سیاسی قیادت کو بھی تقویت حاصل ہوگی۔
بی بی سی کے مطابق بھارتی نتائج کے ساتھ ہی اتر پردیش و بہار میں کانگریس اورعلاقائی جماعتوں کے درمیان سیاسی اتحاد کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کانگریس، اتر پردیش اور بہار میں اکھیلیش یادو، مایاوتی اور لالو کی جماعت کے ساتھ ’سیاسی اتحاد‘ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو اب مزید تیز ہوجائے گی۔
بی بی سی کے مطابق ریاست کے انتخابی نتائج سے نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت کو زبردست سیاسی دھچکہ پہنچا ہے لیکن بی جے پی کے ترجمان سید ظفر اسلام اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ان شمالی ریاستوں میں ایک طویل عرصے سے اقتدار میں تھی اس لیے پارٹی کی انتخابی شکست بہت زیادہ غیر متوقع نہیں ہے۔
بی جے پی کے ترجمان سید ظفر اسلام کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی انتخات پر ان نتائج کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ کانگریس کی رہنما پریانکا چترویدی اس ضمن میں بالکل مختلف خیال کی حامی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ نتائج وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومتی کارکردگی سے عوام کی ناراضی کی عکاس ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کانگریس اب نئی طاقت اور جوش کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں اترے گی۔
بھارت کے سیاسی مبصر ظفرآغا کہتے ہیں کہ نفرت کی سیاست بھلے کچھ وقت کے لئے لوگوں کی نظروں پر پردہ ڈال دے لیکن یہ ملک کی صدیوں پرانی ثقافت اور اعتماد کو ہلا نہیں سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت ہی ہندوستانی اقدار و تہذیب کی بنیاد ہے اور ہندوتوا کی سیاست اس بنیاد پر ٹک ہی نہیں سکتی ہے۔
ظفر آغا کا کہنا ہے کہ مودی و سنگھ نے ہندوستانی اقدار کو تبدیل کرنے کی جرات کی ہے اور لوگ انہیں سزا دینے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں۔
نریندر مودی نے ابتدا ہی سے اپنی سیاست کی بنیاد اقلیت دشمنی پر رکھی اور بطورخاص مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے جنونی ہندوؤں کے جذبات کو مشتعل کیا۔ آج کل بھی وہ اسی سیاست کے طریق پر گامزن ہیں۔
مودی کی اس طرز سیاست کا نشانہ سکھ برادری کے علاوہ خود امن پسند ہندو بھی بن رہے ہیں جس کا اظہار آئے دن بھارتی ذرائع ابلاغ کرتے رہتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اب بھارت میں پارلیمانی انتخابی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی اور یقیناً بی جے پی کی قیادت اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی لائے گی۔
دلچسپ امر ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سلسلے میں تاحال لب کشائی نہیں کی ہے۔