العزیزیہ ریفرنس، جے آئی ٹی نے گواہوں کے بیانات قلمبند نہیں کیے، خواجہ حارث

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی نے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کے گواہوں کا بیان قلمبند نہیں کیا جب کہ جے آئی ٹی ممبران یو اے ای وزارت خارجہ اور پاکستانی قونصل خانے نہیں گئے۔

احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔

خواجہ حارث نے عدالت پہنچنے کے بعد مؤقف اختیار کیا کہ کچھ پریشر تھا تاہم اب ہم 17 دسمبر تک بحث مکمل کر لیں گے۔

احتساب عدالت نے جج نے ریمارکس دیے کہ پھر مجھے کم وقت ملے گا ایسا کرتے ہیں کہ کچھ وقت آپ کے اور کچھ پراسیکیوشن کے کم کر لیتے ہیں۔

نواز شریف نے عدالت سے جانے کی اجازت طلب کی جو انہیں مل گئی جس کے بعد نواز شریف عدالت سے روانہ ہو گئے۔

العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جن دستاویزات کی بنیاد پر یو اے ای حکام کو ایم ایل اے لکھا گیا وہ عدالت کے سامنے نہیں جب کہ واجد ضیاء نے کہا کہ 12 ملین درہم کی کوئی ٹرانزکشن نہیں ہوئی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ گلف اسٹیل کے ذمہ واجب الادا رقم کیسے ادا ہوئی؟ کیا واجب الادا رقم بینک نے ادا کرنا تھی، کوئی بینک گارنٹی تھی ؟

خواجہ حارث نے کہا کہ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے کوئی بینک گارنٹی تھی اور جب واجد ضیاء نے اس ادائیگی کا ذکر کیا تو ان کے پاس بینک گارنٹی سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔

خواجہ حارث نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جے آئی ٹی نے عبد اللہ قائد آہلی کو شامل تفتیش کرنے سے گریز کیا جب کہ جے آئی ٹی نے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کے گواہوں کا بھی بیان قلمبند نہیں کیا اور یہ بھی جھوٹ بولا گیا کہ معاہدے کے گواہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی جب کہ جے آئی ٹی کے ممبران نہ تو یو اے ای وزرات خارجہ گئے اور نہ پاکستانی قونصل خانے گئے۔

خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1980 کے معاہدے کے پیچھے یو اے ای وزرات خارجہ اور پاکستانی قونصل خانے کی مہر موجود ہے جب کہ جے آئی ٹی کی طرف سے کہا گیا کہ وہاں کی عدالت سے معاہدے کا ریکارڈ نہیں ملا۔

عدالت نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ پیر کو بھی خواجہ حارث حتمی دلائل جاری رکھیں گے۔

گزشتہ سماعت میں نواز شریف نے فلیگ شپ ریفرنس میں اپنا مکمل بیان ریکارڈ کرایا تھا اور فلیگ شپ ریفرنس میں بھی اپنا دفاع پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

نواز شریف نے مزید دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کے لئے درخواست بھی دی جب کہ اپنے بیان میں نواز شریف نے کہا کہ استغاثہ اُن کے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

نواز شریف کی صحافیوں سے بات چیت

نواز شریف نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں توازن رکھا ہوا تھا اور دنیا 2013 سے 2017 تک ہماری معیشت کو مضبوط اور متوازن کہتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سال 2017 میں جب میں گھر گیا تو ملک سے دہشت گردی ختم ہو چکی تھی۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ شہباز شریف نے گزشتہ عام انتخابات میں پہلی بار کراچی سے انتخابات میں حصہ لیا تھا جب کہ تحریک انصاف کے فیصل واوڈا صرف چار پانچ سو ووٹوں سے جیتے ہیں اور وہ بھی آپ کو پتہ ہے کیسے جیتے، فافن رپورٹ دیکھ لیں۔

نواز شریف نے نیب سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی تو پوچھے کہ کس طرح احتساب ہو رہا ہے۔ اب نیب کو ہم تو بھگت چکے باقیوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جب کہ نیب عمران خان کے ہیلی کاپٹر کا بھی احتساب کرے اور اُن کے باقی خاندان کے ذرائع آمدن کا بھی احتساب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیاست میں آنے سے پہلے زیادہ خوشحال تھے لیکن سیاست میں آنے کے بعد پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارا تو ذرائع آمدن کا ریکارڈ 1937 سے موجود ہے۔

شہباز شریف سے متعلق بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ جس نے ملک کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیا ہم نے اس شخص کے ساتھ کیا کیا۔ نہ تو صاف پانی سے کچھ نکلا اور نہ ہی آشیانہ اسکینڈل سے۔


متعلقہ خبریں