کشمیر ڈائری: کشمیر کونسل اور آزادکشمیر

مظفرآباد: پی ٹی آئی رہنما کی ریلی پر فائرنگ، 3 زخمی

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل تک آزاد کشمیر کا انتظام پاکستان کے پاس  ہے، عام آدمی کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کشمیر کونسل اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے پل کا کردارادا کرتی ہے۔

کشمیر کونسل کے چیئرمین وزیراعظم پاکستان ، وائس چیئرمین صدر آزادجمو ں و کشمیر اور انچارج  وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر کونسل کا قیام آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 کی شق 21 کے تحت عمل میں لایا گیا۔ کونسل میں چیئرمین، وائس چیئرمین، حکومت پاکستان کے چار وفاقی وزرا،  وزیر امور کشمیر،  وزیر خزانہ، وزیردفاع، وزیر ریلوے اور ایک سینیٹر شامل ہوتے ہیں جبکہ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے ممبران اسمبلی کشمیر کونسل کے چھ  ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔

کشمیر کونسل کے اختیارات کی بات کی جائے توبظاہر خاموش نظر آنے والی یہ کونسل کافی با اختیار ہے، حتیٰ کہ ایک اخبار کا ڈیکلریشن بھی کشمیر کونسل کی منظوری کے بغیر جاری نہیں ہو سکتا۔

آزاد کشمیر کے عبوری آئین کے تحت کشمیر کونسل ایک ایگزیکٹو اتھارٹی ہے، کونسل کی قانون سازی تسلیم کرنا آزاد کشمیر اسمبلی کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ کی دفعہ 31 کے مطابق کشمیر کونسل آزاد کشمیر کے لیے قانون سازی میں اتنی ہی با اختیار ہے جتنی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ہے۔

اسی ایکٹ کی دفعہ 31 کی شق تین بھی بہت اہم ہے جس کے مطابق کشمیر کونسل اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اقوام متحدہ کمیشن برائے پاکستان و بھارت، دفاع  اور سیکیورٹی اور کرنسی سمیت خارجی امور اور بیرونی امداد کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کرسکتے۔
کشمیر کونسل کے پاس سب سے اہم چیز ریاست بھر سے جمع ہونے والا  ٹیکس ہے، ریاست کے تمام انکم ٹیکس کمشنرز کونسل کے ماتحت ہیں اور تمام  ریونیو براہ راست کونسل کے پاس جاتا ہے جس کا 80 فیصد حکومت آزاد کشمیر اور 20  فیصد کشمیر کونسل رکھتی ہے۔

کشمیر کونسل میں کام کرنے والے ملازمین کو ملنے والی مراعات شاید وائٹ ہاوس میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران کو بھی میسرنہیں ہوں گی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق آزاد کشمیراورگلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہیں اور رائے شماری کی صورت میں ان علاقوں کے عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، سی پیک کی وجہ سے گلگت بلتستان کو تو صوبہ بنانے کی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں لیکن آزاد کشمیرکو قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی نہیں مل سکی اور نہ ہی کشمیر کونسل کے بارے میں کوئی اقدامات ہوسکے۔

علاقے کی حساسیت اورکشمیر کونسل کے ضرورت سے زیادہ اختیارات کی وجہ سے یہاں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر بھی پروان نہیں چڑھ رہا اور پبلک سیکٹر میں ملازمتوں کا یہ حال ہے کہ ایک کلرک کی تعیناتی کے لیے متعلقہ ایم ایل اے یا وزیر کے علاوہ کشمیر کونسل تک رسائی معمول بن چکی ہے۔

ریاست میں شرح خواندگی کے ساتھ  ساتھ  بے روزگاری بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 14 فیصد سے زیادہ ہے اور اس کی ذمہ داری بہت حد تک کشمیر کونسل پرعائد ہوتی ہے جس نے ایک مناسب پل کا کردارادا کرنے کے بجائے ریاست سے جمع ہونے والے ریونیو میں کرپشن اورکک بیکس کا کلچر پروان چڑھایا۔

حال ہی میں وزیراعظم آزاد کشمیر نے کونسل ختم کرنے کا اعلان کیا اور اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان سمیت وفاقی کابینہ کے بیشتر وزرا سے ملاقاتیں بھی کیں تا کہ کشمیر کونسل ختم کرکے اختیارات براہ راست آزاد کشمیر قانون سا زاسمبلی کو منتقل کیے جاسکیں، عوام کے مطابق وزیراعظم کی کوشش بہت مناسب تھی مگر اس کے باوجود کچھ نہ ہوا اورحکومتی اعلانات ہوا میں رہے جس سے عوام میں کافی مایوسی پائی جا رہی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز