مہنگائی کا عفریت

کسی بھی حکومتی ذمہ دار کاغیر ذمہ دارانہ بیان پڑھ، سن کر مجھے صدمے کی حد تک حیرت ہوتی ہے، آج نجی ٹی وی پر صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراطلاعات شوکت یوسف زئی کو یہ کہتے سن کر کہ وہ روٹی کی قیمت میں اضافے کی اجازت نہیں دیں گے البتہ روٹی کا وزن کم کیا جاسکتا ہے، میں اسی مقام حیرت سے ایک بار پھر گزری ۔

مطلب حد ہی ہوگئی۔ یہ انتہائی قابل مذمت بات ہے کہ حکومتی وزیر آئے دن عوامی بے بسی کا کا مذاق اڑاتے دکھائی دیتے ہیں، کوئی دو کے بجائے ایک روٹی کھانے کا مشورہ دیتا ہے توکوئی تندوریوں اور ہوٹل والوں کو روٹی کا وزن کم کرنے کا مشورہ دیتا نظر آتا ہے اور یہاں ایک صاحب تو پیڑے کے وزن میں گراموں کے حساب سے تبدیلی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کرچکے ہیں۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ اب واقعی غریبوں کی چیخیں نکل گئی ہیں کیوں کہ بنیادی اشیائے ضروریہ انہیں اپنی پہنچ سے باہر ہوتی نظر آ رہی ہیں، اس مسئلے نے عوام الناس کو کچھ اس بری طرح سے زچ کیا ہے کہ وہ لوگ جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ضمن میں خاموشی اختیار کرچکے تھے ایک بار پھر بولنا شروع ہوگئے اور سچ کہیں تو اُن کا بولنا بنتا بھی ہے کیوں کہ نئی حکومت کے دور میں ہر چیز مہنگائی کی حدوں تک جا پہنچی ہے یہاں تک کہ آٹا بھی 40 روپے سے چلتا ہوا 70 روپے تک آ پہنچا ۔

چلیں اسی حوالے سے بات کرتے ہیں گزشتہ دنوں لاہور میں آٹا چکی ایسوسی ایشن نے آٹے کی قیمت میں 6 روپے فی کلو اضافہ کر دیا ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی آٹے کی قیمت میں پہلے 4 روپے اضافہ کیا گیا تھا، چکی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ سے گندم 2 ہزار روپے فی من ملتی ہے، فلور ملز کو وہی گندم 1350 روپے میں فراہم کی جاتی ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد آٹے کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سماجی رابطوں کے فورمز کے شدید احتجاج کے نتیجے میں وزیر اعظم عمران خان نے آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے معاملے کا کچھ نوٹس لیا تو ہے اور یہ بھی سنا ہے کہ وفاق نے رواں سال 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب خدا ہی جانتا ہے کہ باقی فیصلوں کی مانند یہ بھی صرف باتیں ہی ہیں یا پھر واقعی ریاست مدینہ میں عوام الناس کے ساتھ کچھ بہتر ہونے جارہا ہے ۔ آٹے کے حوالے سے اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب آٹے کی مختلف اقسام، دو اعشاریہ پانچ، فائن، چکی والے اور برانڈڈ آٹے کی قیمتوں میں گذشتہ چند ماہ کے دوران متعدد بار اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی سے متعلق رپورٹس کے مطابق گزشتہ ایک برس میں آٹے کی مجموعی قیمت میں 23 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ آٹے کی بڑھتی قیمتوں کے بعد مارکیٹ میں دستیاب 20 کلو آٹے کا تھیلا 15 کلو کا کر دیا گیا ہے۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق دسمبر 2019ء میں سالانہ تناسب سے عمومی مہنگائی کی شرح 12 اعشاریہ چار فیصد تھی۔ کھانے پینے کی اشیاءکی مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ 16 اعشاریہ نو فیصد رہی تھی۔

کنزیومر پرائس انڈیکس میں دسمبر 2018 کے مقابلے میں 12 اعشاریہ 42 فیصد اضافہ رپورٹ کیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت جس صوبے میں آٹے کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ عمل میں آیا ہے یعنی پنجاب، یہ پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں گندم کی پیداوار باقی صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ ہوتی ہے جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی فلور مل انڈسٹری اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے 80 فیصد گندم پنجاب کی اوپن مارکیٹ سے خریدتی ہے۔ پاکستان میں اندازاًسالانہ 25 ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے تاہم گزشتہ برس بارش اور سیلاب کے سبب ایک لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا جس سے گندم کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔ پنجاب میں گزشتہ سال گندم کی غیر معمولی پیداوار کی توقع کی جارہی تھی لیکن بارش کے سبب ایک لاکھ ایکڑ پر کاشت گئی گندم کی فصل کو نقصان پہنچا ۔ اس صورتحال میں آٹے کی مہنگائی کی توقع تو تھی تاہم یہ تسلی بھی تھی کہ ایسی صورتحال میں حکومتی سبسیڈی عوام کا حق ہوتا ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستانی عوام نے موجودہ حکومت کی جانب سے اچھی خبروں کی آس چھوڑ دی ہے لیکن اتنی زیادہ مشکلات کا لوگوں نے تصور نہیں کیا تھا۔”ہمت “ ٹوٹ جائے تو ہار اور جیت کا سوال نہیں رہتا۔ اس وقت اشیائے ضروریہ کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ دودھ 100 سے 110 روپے فی کلو، بکرے کا گوشت 1300روپے فی کلو، گائے کا گوشت 800 روپے فی کلو، مرغی کا گوشت 250 سے 350 روپے فی کلو، تیل 230 روپے فی کلو سے، انڈے 135 روپے فی درجن سے، مسور کی دال 145 روپے فی کلو، مونگ کی دال 240 روپے فی کلو، چنے کی دال160 روپے فی کلو، ملکہ مسور 125 روپے فی کلو، ماش کی دال 240 روپے فی کلو، چینی 74روپے فی کلو ، پانچ کلو چکی کا آٹا 335 روپے جبکہ پانچ کلو سفید آٹا 305 روپے تک جا پہنچا ہے۔

سبزیوں میں ٹماٹر کی مہنگائی زبان زد عام ہے، دیگر سبزیاں یہاں تک کہ ہرا دھنیا، پودینہ اور ہری مرچیں بھی مہنگی ہیں۔ اس کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے پیٹرول کی قیمت جس کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے جو اس وقت 114 روپے فی لیٹر سے زائد میں فروخت ہو کر ہر چیز کی قیمت کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ زیر تذکرہ یہ تمام اشیاءایک عام گھرانے میں روز استعمال کی جاتی ہیں۔اس صورتحال میں اوسطاً 15000 سے 18000 کمانے والے ایک ایسے فرد کیلئے جس کے اُوپر گھر کے چار سے پانچ افراد کی ذمہ داری بھی ہو ماہانہ گزارا انتہائی دشوار ہے۔

تادم تحریر پاکستانی عوام گوناں گو مسائل کا کچھ اس شدت سے شکار ہیں کہ انہیں کسی اور جانب دیکھنے کا یارا ہی نہیں، ایسے میں اگر کسی بھی حکومتی ذمہ دار کی جانب سے ایسا مضحکہ خیز رویہ اختیار کیا جائے تو پڑھے لکھے نئے پاکستان کو چلانے والوں کو خود ہی سوچ لینا چاہئے کہ عوام کی جانب سے کیا ردعمل سامنے آئے گا؟
حکمراں طبقے کا کہنا ہے ”حوصلہ نہیں ہارنا “ صورتحال بہتر ہو رہی ہے، آنے والے دنوں میں اچھائی کی اُمید ہے اور عوام کے پاس ماسوائے ”صبر“ اور کوئی چارہ نہیں، بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستانی عوام کو اس کے صبر کا میٹھا پھل دیں ۔

 

ٹاپ اسٹوریز