اقوام متحدہ کی عظیم الشان عمارت مجھے کئی وجہ سے یاد ہے، اُس دوپہر جب اِس عالمی ادارے کی دہلیز پر میں نے پہلا قدم رکھا تو میری ملاقات شکیلہ فاروق سے ہوئی۔ شکیلہ فاروق ایک کشمیری نژاد بچی تھی جو یونیورسٹی کی چھٹیوں کے دوران رضا کار کے طور پر اس ادارے میں ایک اسٹال سنبھالے کھڑی تھی۔ وہ یہاں آنے والے ہر مہمان کی طرف لپک کر پہنچتی اور اسے کشمیر کے مسئلے سے آگاہ کرتی اور ضروری لڑیچر فراہم کرتی۔ اس بچی کا معصوم چہرہ اور پرجوش انداز گفتگومجھے کبھی بھولتا نہیں۔ اس عمارت کو یاد رکھنے کی ایک وجہ یہ ہے۔
اسے یاد رکھنے کی ایک اور وجہ ہمارے لڑکپن میں پیدا ہوئی۔ وہ جہادِافغانستان کا زمانہ تھا، پورا مغرب اور سارا عالم اسلام پاکستان کی پشت پر کھڑا تھا اور پاکستان افغانستان سے سرخ ریچھ کو نکالنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔ اس زمانے میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل محمد ضیاالحق نے امت مسلمہ کے نمائندے کی حیثیت سے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اس خطاب کے بارے میں ہمیں دو باتیں بتائی گئیں۔
اوّل یہ کہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی باراس ایوان میں تلاوت قرآن حکیم کا روح پرور نغمہ گونجا۔ بعد میں خبر ہوئی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن کے باکمال انجینئروں نے ہاتھ کی ایسی صفائی دکھائی کہ پی ٹی وی کے کسی اسٹوڈیوز میں ریکارڈ ہونے والی تلاوت جنرل اسمبلی میں ہوتی سنائی دی۔ اسی واقعے سے منسلک دوسری یاد بھی بڑی متبرک ہے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ جنرل ضیا جب خطاب کرنے کے لیے یہاں آئے تو انھوں نے خلاف کعبہ کا ایک ٹکڑا تحفے کے طور پر سیکریٹری جنرل کو پیش کیا جو اب اس عمارت میں آوایزاں ہے۔ میں جب یہاں آیا تو اس غلاف کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ شاید کسی سے اس بارے میں سوال بھی کیا لیکن کوئی جواب نہ مل سکا۔ اقوام عالم کے اس سب سے بڑے مرکز کو یاد رکھنے کی تیسری وجہ اب پیدا ہوئی ہے۔
اس کا ایک ذمہ دار اگر چہ مودی بھی ہے لیکن اصل کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے جنھوں نے یہاں ایک تاریخی تقریر کی۔ دنیا میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کو مثبت اور منفی دونوں اعتبار سے دیکھا جا سکتا ہے۔ عمران خان کی تقریر کو بھی اس سے استثنا نہیں۔ اس اصول پر یقین رکھنے کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ دوچار اِدھر اُدھر کی باتیں دہرا لینے کے باوجود اس تقریر پر کوئی بڑا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ حالات میں کشمیر کا درد رکھنے والا جو شخص بھی اس ایوان میں جاتا یہی بات کرتا۔ عمران خان نے اس پس منظر میں یہ مقدمہ پوری قوت کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر بھی سیاست غالب آ گئی اور قومی مقاصد پس منظر میں چلے گئے؟
جب کوئی انسان علیل ہوتا ہے تو طبیب اور معا لجین مرض کی شناخت کے لیے تکلیف کی علامات اوراُس کے مظاہر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے میں سیاسی اور سماجی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنے کے لیے بھی معاشرتی اور سماجی علوم کے ماہرین کچھ ایسا ہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ عمران خان کی تقریر کے بعد اس میں کیڑے ڈالنے کی کوششوں کے مسئلے کا اگر اس اصول کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے پاکستانی معاشرہ لمحہ ِموجود میں بری طرح منقسم ہو چکا ہے اور اس تقسیم کا شکار لوگ مخالفین کو ذرا سی بھی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
کشمیر کے مسئلے پر مرکزی سیاسی قیادت نے اگرچہ باہم متفق اور یک جان ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے لیکن عملاً ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یہ نہایت پریشان کن رجحان ہے جس سے نجات حاصل کیے بغیر کشمیر کی صورت میں درپیش چیلنج سے نمٹنا مشکل ہے لیکن یہ مقصد اس وقت تک قطعاً حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک اس تقسیم کو گہرا کرنے کے ذمہ داران اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں اور اسے تسلیم کرنے اور اختلاف کی ان کی بنیادوں کو منہدم کرنے کے بعد اتحاد کی فضا پیدا نہ کریں۔ بصورت دیگر عمران خان نے ہفتہ بھر امریکہ میں رہ کر جو محنت کی ہے اور اقوام عالم کی توجہ جس طرح مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول کرائی ہے، اس کے ثمرات سمیٹنا مشکل ہوجائے گا۔
انتخابات کے زمانے میں جذباتی اشتعال پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی قوتیں نہایت احتیاط سے حکمت عملی تیار کرتی ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر اپنے کارکنوں میں یکسوئی پیدا کی جاتی ہے اور ووٹر کی توجہ اس معرکے میں مبارزت آزما دیگرقوتوں کی طرف سے موڑ کر اپنی جانب مبذول کرائی جاتی ہے لیکن جیسے ہی یہ مرحلہ گزر جاتا ہے، انتخابی بخار کو بڑی حکمت سے اتارکر کاروبار زندگی ازسرنو شروع کر دیا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں تعمیر وترقی کا عمل اپنی فطری رفتار پر آ سکے۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اس بار انتخاب گزر جانے کے باوجود اس جذباتی کیفیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جس کی وجہ سے معاشرتی ہم آہنگی کا عمل شروع ہو سکا ہے اور نہ ملک استحکام کی جانب گامزن ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اس تلخی کوایک طرف گزشتہ تین چار برس میں رونما ہونے والے حالات نے بنیاد فراہم کی ہے تو دوسری طرف اہل اقتدار اور اُن کے حلقہ انتخاب کی لامتناہی جذباتیت نے اس کا راستہ روک رکھا ہے۔
تاہم مسئلہ کشمیر کی تازہ صورت حال نے ہمیں ایک موقع فراہم کردیا ہے، حکومت کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سیاسی حدت کو کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ قوم یکسوئی کے ساتھ اپنے بنیادی قومی مسئلے کے حل کی طرف قدم اٹھا سکے۔ ایسا نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ نہ صرف کشمیر بلکہ دیگر قومی امور کے ضمن میں بھی ہمیں پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔