تقریباً دو برس قبل آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا میں ایک ماہ قیام اور ملک کے مختلف علاقوں کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔
کسی بھی ترقی پذیر ملک کی طرح انڈونیشیا کو بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن وہاں کی کچھ چیزوں نے مجھے بہت متاثر کیا جن پر غور کر کے ہم پاکستانی اور ہمارے حکمران بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ان میں سے ایک معاشرے میں عورت کا فعال کردار ہے، چاہے آپ ملک کے دارالحکومت جکارتہ میں ہوں یا کسی دور دراز گاؤں میں، آپ کو خواتین مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرتی نظر آئیں گی۔ کئی عمارتوں کے باہر خواتین کو سیکیورٹی گارڈ کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے دیکھا۔ ہر جگہ آپ کو سڑکوں پر حجاب اوڑھے خواتین موٹر سائیکل چلاتی نظر آئیں گی۔
دیہی علاقوں کی کچی سڑکوں پر بھی مردوں کی نسبت زیادہ خواتین کو موٹر سائیکل چلاتے دیکھا۔ پوچھنے پر ایک مقامی شخص نے بتایا کہ دیہات میں اکثر خواتین، جن میں نانیاں اور دادیاں بھی شامل ہیں، گھر کے لیے سودا سلف لانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو موٹر سائیکل پر اسکول چھوڑنے اور لینے جاتی ہیں کیونکہ مرد صبح سویرے ہی یا تو کھیتی باڑی میں مصروف ہو جاتے ہیں یا پھر روز گار کے سلسلے میں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
جکارتہ میں آپ کو آدھی رات کو بھی خواتین بلا خوف و خطر سڑکوں پر موٹر سائیکل چلاتی نظر آئیں گی۔ اس شہر میں ٹریفک کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اکثر سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی لیے شہر میں موٹر سائیکل ٹیکسی سروس بہت مقبول ہے۔ شاید آپ کو سن کر حیرت ہو کہ بڑی تعداد میں خواتین بھی اس روز گار سے منسلک ہیں۔
یہ واضح تھا کہ خواتین وہاں “مجبوری” میں موٹر سائیکل نہیں چلاتیں بلکہ ملک کے مرد شہریوں کی طرح وہ بھی اس سواری کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ انسان کی آسانی کے لیے بنائی گئی چیزوں سے عورتوں کو بھی مستفید ہونے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مردوں کو ہے۔
پاکستان میں حکومتی اور نجی ادارے گاہے بگائے ایسے منصوبے متعارف کراتے رہتے ہیں جن کا مقصد موٹر سائیکل چلانے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں یہ اعتماد دینا ہوتا ہے کہ وہ بھی یہ سواری چلا سکتی ہیں۔ لیکن پاکستانی معاشرہ اس حوالے سے کیا رویہ رکھتا ہے ہم سب اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔
انڈونیشیا کے مختلف علاقوں کا سفر کرنے کے بعد یہ واضح تھا کہ عوامی مقامات جیسے ٹرین اسٹیشنز، شاپنگ سینٹرز وغیرہ میں قائم بیت الخلا میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ٹرین کے ذریعے ایک دوردراز دیہی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں بھی ٹرین اسٹیشن پر صاف ستھرے بیت الخلا دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔
ایک بڑی آبادی ہونے کے باوجود ملک میں صحت کا نظام بھی پاکستان سے کافی بہتر ہے، ایسے دورداز علاقے جہاں صحت کی خصوصی سہولیات موجود نہیں ہیں، ان علاقوں کے لیے ہفتہ وار یا مہینے میں ایک بار خصوصی صحت ٹرینیں چلائی جاتی ہیں جن میں مختلف امراض کے ماہرین کے علاوہ لیبارٹری بھی ہوتی ہے جہاں مریضوں کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
ایک ایسی ہی ٹرین پر جکارتہ سے تقریباً سات گھنٹے کی مسافت پر موجود ایک چھوٹے سے قصبے میں جانے کا موقع ملا۔ عموماً یہ ٹرینیں کسی ایسے قصبے کے اسٹیشن پر جا کر کھڑی ہوتی ہیں جس کے اردگرد کافی دیہات آباد ہوں۔ کس علاقے میں صحت ٹرین کب جائے گی اس حوالے سے عوام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے۔
جس ٹرین پر مجھے سفر کرنے موقع ملا وہ علی الصبح ہی اپنی منزل پر پہنچ گئی اور دن بھر میں تقریباً چھ سو مریضوں کو دیکھا گیا۔ وہاں کی آبادی کو دیکھ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اور لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ کسی بڑے شہر جا کر ڈاکٹر کو معائنہ کرا سکیں۔
جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ وہاں کے لوگوں کا ڈسپلن تھا، دن بھر ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آیا جس نے قطار توڑی ہو۔ ٹرین کے میڈیکل انچارج نے مجھے بتایا کہ علاقے میں بنیادی سہولیات تو ہیں لیکن عوام کی سہولت کے لیے حکومت ملک کے مختلف حصوں میں یہ خصوصی ٹرینیں چلاتی ہے جن میں ماہر امراض زچہ و بچہ ، دانتوں کے ڈاکرز وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔
ٹرین پر موجود ڈاکٹرز سمیت تمام میڈیکل عملے نے یونیفارم پہن رکھے تھے، میڈیکل انچارج جنھوں نے خود بھی یونیفارم پہن رکھا تھا نے پوچھنے بتایا کہ ہم ڈسپلن پر بہت توجہ دیتے ہیں، عوام کو بھی پتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر بلاوجہ تاخیر نہیں کرے گا اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہاں کے کم خواندہ عوام بھی صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔
صحت ٹرینوں کے علاوہ دوردراز علاقوں کے لیے ٹرین لائبریریاں بھی چلائی جاتی ہیں جن میں ہر عمر کے لوگوں کے لیے کتابوں کے علاوہ معلوماتی فلمیں دیکھنے کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ اکثر لوگ ان لائبریریوں سے کتابیں حاصل کرتے ہیں۔ کسی علاقے میں یہ ٹرین کب آئے گی اس حوالے سے لوگوں کو پہلے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی یہ مسئلہ رہا ہے کہ دور دراز علاقوں میں اسپیشلسٹ ڈاکٹرز تعینات ہونا پسند نہیں کرتے، کیا حکومت پاکستان اپنے شہریوں کی سہولت کے لیے کوئی ایسی سکیم متعارف نہیں کرا سکتی؟؟