صحت پر سیاست

لاہور ڈائری

نواز شریف علاج کیلئے کل بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے، ذرائع

کیا واقعی حکومت نے نواز شریف کی صحت سے متعلق کھلواڑ شروع کر دیا ہے، یہ ایک ایسی نا ختم ہونے والی بحث ہے جس کی تائید اور مخالفت کرنے والے کسی بھی صورت ہار ماننے کو تیار نہیں۔ ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت کے محکمہ جیل خانہ جات اور محکمہ صحت، سابق وزیر اعطم میاں نواز شریف کی صحت کو لیکر اتنے سنجیدہ ہیں کہ دونوں صرف ایک ایمبولینس کے معاملے پر ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ آئے روز میاں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان انکی صحت کے متعلق پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کرتے رہتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔

پہلے پہل ایسے نظر آتا تھا کہ شائد ڈاکڑ عدنان غیرضروری طور پر یا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کرتے ہیں اور بلاوجہ نواز شریف کی صحت کے متعلق تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں تاکہ عدالت سے سہولت حاصل کی جا سکے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل پنجاب حکومت نے اپنے ترجمانوں کے ذریعے نوازشریف کی صحت سے متعلق لمبے چوڑے بیانات داغنے اور میڈیا کو خفیہ ذرائع سے نوٹیفیکیشن بھیجنے شروع کر دیے تھے۔

ان خبروں میں بتایا گیا تھا کہ کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 4470 کی صحت پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نا کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی فوج ظفر موج کو تین شفٹوں میں تعینات کر دیا گیا ہے جس کے ساتھ ساتھ ایک ایمبولینس تیار حالت میں ہر وقت کوٹ لکھپت جیل میں موجود رہے گی۔ کچھ صحافیوں کو تو باقاعدہ طور پر جیل لیجا کر اس ایمبولینس کی سیر بھی کرائی گئی اور یوں کسی نا کسی حد تک میڈیا کے ذریعے قیدی نمر 4470 کی صحت کے متعلق انکی فیملی اور ڈاکٹر کے تحفظات کا سدباب  کر لیا گیا۔

حکومت پنجاب کا خیال تھا کہ میاں صاحب کو کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں، بس بلاوجہ ہی انکی فیملی عدالتی ریلیف حاصل کرنے کے لیے شور مچا رہی ہے اور جب عدالتی ریلیف بھی نا ملا تو معاملہ بس دب سا گیا مگر ایک دم یہ معاملہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آ گیا ہے جس میں پنجاب حکومت کے اپنے دو محکموں جیل اور صحت نے قیدی نمبر 4470 کی بیماری پر سیاست شروع کر دی ہے۔ جیل خانہ جات نے محکمہ صحت کو خط میں تنبیہ کی ہے کہ سروسز ہسپتال کی جو ایمبولینس میاں نواز شریف کی ایمرجنسی کی صورت میں جیل میں موجود ہے وہ اس قابل نہیں کہ دل کا مسئلہ ہونے کی صورت میں فوری سہولت فراہم کرسکے۔ اسے  تبدیل کر کے تمام سہولیات سے مزین ایمبولینس فراہم کی جائے۔

جیل انتظامیہ کے مطابق ایمبولینس میں وینٹی لیٹر، ڈی فیبیلیٹر،ای سی جی، اور کارڈیک مانیٹر لازمی ہونا چاہیے. محکمہ صحت نے فوری طور پر دل کے سب سے بڑے اور صوبائی دارالحکومت کے اکلوتے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیا لوجی کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی آئی سی اسکو فوری حل کرتا اور اپنی ذمہ داری ادا کرتا مگر اسکی انتظامیہ نے یہ معاملہ سروسز اسپتال کے کھاتے میں یہ کہہ کر ڈالتے ہوئے اپنے جان چھڑا لی کہ پہلے بھی ایمبولینس سروسز ہسپتال نے ہی فراہم کر رکھی ہے، اب بھی وہی اس معاملے کو دیکھے۔

جب سروسز اسپتال کو یہ معاملہ بھیجا گیا تو اس کی انتظامیہ نے کورا جواب دیتے ہوئے سہولیات کی کمی کا رونا رونا شروع کر دیا۔ دونوں اسپتالوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ریسکیو 1122 سے ایمبولینس لے لیں جبکہ سروسز ہسپتال نے تو یہ بھی انکشاف کر دیا کہ جاپانی حکومت سے ملنے والی ایمبولینس مریضوں کی بجائے، یی وی آئی پی، وی آئی پی، وزیر اعظم، صدر اور وزیر اعلی کے پروٹوکول میں استعمال ہوتی ہے۔

ہرحال سیاست اپنی جگہ لیکن دل کے عارضے میں مبتلا قیدی نمر 4470 کو علاج کی بہتر سہولیات فراہم کرنا موجودہ حکومت کا فرض ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو کم از کم میڈیا کو استعمال کر کے اور جھوٹ کا سہارا لیکر عوام کو بے وقوف نا بنایا جائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جیل خانہ جات کے زیر اہتمام پنجاب کی جیلوں میں جو چھوٹے اسپتال موجود ہیں وہ مریض کی حالت بہتر کرنے کے بجائے اور بیمار کر دیتے ہیں لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم کی صحت کے متعلق کسی بھی قسم کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا اور اس معاملے پر سیاست نا کی جائے۔

ٹاپ اسٹوریز