کرپشن کے سنگین الزامات کے تحت گرفتار آصف علی زرداری صاحب کی پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی آمد، اس دوران میڈیا کو انٹرویو دینے اور اس انٹرویو کو نشر ہونے سے روکنے پر ملک میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔
فورا” آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ یہ حزب مخالف کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ انٹرویو کرنے والے صحافی نے اسے آزادی صحافت پر حملے کے ساتھ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث قرار دیا۔ یہاں تک کہہ دیا کہ اس انٹرویو کو روکنے کی وجہ سے دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے اور سویلین حکومت کی کوئی نہیں سنتا۔
اس سے کم ازکم پاکستانیوں کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ حقیقی جمہوریت کے لیے صرف عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار اور مقدمات کا سامنا کرنے والوں کو اسمبلی کے ساتھ میڈیا پلیٹ فارم فراہم کرنے سے ہی وطن عزیز میں حقیقی جمہوریت آئے گی۔
جب ملزمان ٹی وی پر بیٹھ کر اخلاقیات اور جمہوریت کا درس دیں گے تو اس سے پاکستانی عوام تو مستفید ہونگے ہی لیکن اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دنیا بھر کو ہم یہ باور کرا سکیں گے کہ دیکھو ہمارے ہاں آزادی رائے اور حقیقی جمہوریت ہے۔ ایسا کرنے سے یقیناً” ملک کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا۔
دہشت گردی میں ملوث نام نہاد لاپتہ افراد ہوں، پی ٹی ایم ہو، بدعنوانی کے الزام میں گرفتار سیاستدان ہوں یا پھر اجمل قصاب کا معاملہ پاکستانی صحافت کے کچھ ستاروں نے ہمیشہ ملک کی عزت میں اضافے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
کچھ دوست تو جذبات میں بہہ کر یہاں تک کہہ گئے کہ اس انٹرویو کو روکنے سے ضیا دور کے مارشل لاء کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ انتہائی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ کیا چند ہفتے قبل، جب آصف علی زرداری صاحب گرفتار نہیں ہوئے تھے، تو کیا ان کو میڈیا پر آنے کی آزادی نہیں تھی؟ ہر روز عدالت میں پیشی کے موقعے پر وہ صحافیوں سے جو بات چیت کرتے ہیں کیا وہ میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتی؟ کیا ان کے فرزند بلاول بھٹو روز میڈیا پر نہیں آتے؟ کیا مریم نواز صاحبہ کا انٹرویو کرنے سے کسی کو روکا گیا ہے؟ کیا شام سات سے رات گیارہ تک ہر چینل پر حزب مخالف کے رہنما قوم کے سامنے اپنا بیانیہ نہیں رکھتے؟
دنیا کا کونسا جمہوری ملک ہے جہاں ایک شخص گرفتار ہو، عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہا ہو اور میڈیا اس کا گھنٹے پر مشتمل انٹرویو کرے؟ کیا صحافتی اخلاقیات اس بات کی اجازت دیتی ہیں؟
صحافی کوئی بھی ہو اسے اپنی خبر یا اپنا ایکسکلوسو انٹرویو بہت عزیز ہوتا ہے۔ اکثر اوقات بہت بھاگ دوڑ کے بعد صحافی کے ہاتھ میں کچھ ’مختلف‘ آئے اور وہ نشر یا شائع نہ ہو سکے تو یقیناً بہت افسوس ہوتا ہے۔
جب سے ملک میں نیوز چینلز کی بھرمار ہوئی ہے پاکستانی صحافت پر ایک الزام بار بار لگتا ہے کہ ٹی وی پر پیراشوٹ کے ذریعے آنے والے صحافیوں نے ملک میں صحافتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی کہ چونکہ ان لوگوں کی اخبار جیسے روائتی صحافتی اداروں میں تربیت نہیں ہوئی اس لیے یہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے نابلد ہیں۔
امید یہی تھی کہ نئے آنے والے کمانڈو نما صحافی جو کیمرہ مائیک اٹھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری گاڑیوں کے کاغذات چیک کرنے سے لے کر قتل کے ملزمان سے حوالات میں تفتیش کرنا ان کا صحافتی فر ض اور حق ہے، اس انڈسٹری سے وابستہ سنیئر صحافیوں سے کچھ سیکھیں گے لیکن یہاں پر تو معاملہ الٹ ہی لگ رہا ہے۔