سرحدی تنائو اور ایف اے ٹی ایف کے دباو کے بعد بلآخر ریاست پاکستان نے کالعدم جماعتوں کے خلاف کارروائیاں تیز کردی ہیں جو نیک شگون ہے، سرکار کی جانب سے کالعدم جماعتوں کے مدارس، مساجد، زیراستعمال جائیدادیں، ڈسپنسریاں اور ایمبولنسز کو اپنی تحویل میں لینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ سرکاری سطح پر آنے والے بیانات سے لگ رہا ہے کہ اس بار کالعدم تنظیموں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے، مگر ماضی کے تلخ تجربات کے باعث لوگوں کو اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ کیا واقعی ایسا ہونے جارہا ہے؟
لوگوں کے شک کی وجہ یہ ہے کہ مشرف دور میں بھی کالعدم جماعتوں پر پابندی لگا کر اسطرح کے اقدامات کیے گئے تھے مگر بعد میں کئی کالعدم جماعتوں کی سرگرمیاں جاری رہیں۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول سانحے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان میں کالعدم جاعتوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا قوم سے وعدہ کیا گیا تھا مگر اس پر بھی اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہ ہوسکا۔ یوں بعد میں ان تنظیموں کو مین اسٹریم یعنی قومی دھارے میں لانے کے اقدامات شروع ہوگئے جس سے بداعتمادی کی فضا میں اضافہ ہوا۔ البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد سے کیے جانے والے اقدامات سے دہشتگردی اور فرقہ وارنہ واقعات میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے تازہ انٹرویو میں کالعدم جماعتوں سے متعلق موقف نے بھی اس بات کی تائید کردی ہے کہ ریاست اب مسلح جہادیوں کے جتھوں کو مزید براشت نہیں کرے گی، برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے واضح کیا کہ نئے پاکستان میں دہشت گردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں اور پاکستان کا جیش محمدنامی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں، دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کالعدم جماعتوں پر پابندی کی بات کی جاتی ہے تو ایک سوال لوگوں کے ذہنوں میں بار بار اٹھتا ہے کہ کیا اسٹیبلمشنٹ یا فوجی قیادت بھی چاہتی ہے کہ کالعدم جماعتوں اور مسلح جہاد کی فرنچائزز کو بند کیا جائے؟ سانحہ زاہدان اور پلوامہ واقعہ نے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے دہانے پر پہنچا دیاہے ، پلوامہ حملے کی ذمہ داری جیش محمد نامی کالعدم تنظیم اور زاہدان میں سپاہ پاسداران کی بس پر حملے کی ذمہ داری بلوچستان میں سرگرم جیش العدل نامی تنظیم نے قبول کی ۔ان کالعدم جماعتوں کے دعوے خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ عناصران حملوں میں ملوث تھے بھلے کسی تیسری قوت کے اشارے پر ہی کیوں نہ استعمال ہوئے ہوں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے ایک ادارے کے سربراہ بااثر مذہبی رہنماوں سے تین ماہ میں تین ملاقاتیں کرچکے ہیں، ان ملاقاتوں کا ایجنڈا کالعدم جماعتوں، مسلح جہاد اور دہشتگردی تھا۔ قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ نے مذہبی رہنماوں پر واضح کیا کہ وہ اب کسی صورت یہ برداشت نہیں کرینگے کہ کوئی بھی تنظیم یا فرد ریاست کے اندر اسلحہ اٹھائے، ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں مگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے۔ جب پاکستان آگے بڑھنا چاہتا تو ہے تو کوئی نہ کوئی سانحہ ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی گزارش ہے کہ آپ بااثر مذہبی رہنما ایسے افراد جو واقعات میں استعمال ہوتے ہیں انہیں روکنے اور سمجھانے میں مدد کریں، ریاست کے بیانیہ پر عمل درآمد کرانے میں تعاون کریں، ورنہ ریاست اپنا کام کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کی زیرصدارت کراچی میں ہونے والی یہ تیسری میٹنگ تھی جس میں انہوں نے شرکا کو کھل کر بات کرنے کا موقع دیا اور کہا کہ وہ اسی مقصد کی خاطر کراچی آئے ہیں۔ علما کرام کے ذہنوں میں جو بھی سوالات ہیں ضرور کریں۔
قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ نے شرکا کے سوالات سنے اور ان کا تسلی بخش جوابات بھی دیے۔ اس ملاقات میں شریک ایک شخصیت نے بتایا کہ قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کی باتیں سن کر شرکا پر واضح ہوگیا کہ ریاست اب کسی تنظیم کو اسلحہ اٹھانے نہیں دے گی، نہ ہی اس کی اجازت دے گی۔ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے سب ریاستی ادارے سنجیدہ ہیں۔ شرکا نے یہ سوال بھی کیا کہ عموماً دیکھا گیا کہ قومی سلامتی کے اداروں کی کمان تبدیل ہوجانے کے ساتھ ہی پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں ، کیا گارنٹی ہے کہ اب کی بار ایسا نہیں ہوگا؟ اس پر قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ نے کہا کہ یہ فیصلہ ان کا ذاتی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے ادارے کا ہے ۔ علما کی جانب سے مدارس کا حکومت کی جانب سے آڈٹ کرانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا جس پر انہوں نے دوٹوک واضح کیا کہ آڈٹ تو ہوگا اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم شرکا کا زیادہ زور اس بات پر رہا کہ آڈٹ کسی پرائیویٹ فرم سے کرایا جائے حکومت یہ ذمہ داری نہ لے۔ ان ملاقاتوں کا احوال جان کر خوشی ہوئی کہ چلو دیر ہی سہی مگر ریاستی اداروں کو احساس تو ہوا کہ کالعدم جماعتوں یا پرائیوٹ جہاد سے ملک کا فائدہ نہیں نقصان ہوتا ہے۔