لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا ہے کہ انور مجید کو پمز اسپتال، عبد الغنی مجید اور حسین لوائی کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔
سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ لوگ بہت بااثر ہیں کراچی میں ان کا اقتدار ہے، انہیں اسلام آباد منتقل کیا جائے تاکہ آزادانہ تفتیش ہو سکے۔
انور مجید کے وکیل نے عدالت سے بار بار استدعا کی کہ ملزم کی تفتیش کراچی میں ہی کی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے اصرار سے ہم زیادہ غیر مطمئن ہو رہے کہ اس کے پیچھے کوئی وجہ ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ اگر انور مجید عام جہاز پر نہیں آسکتے تو ائیر ایمبولینس میں لے آئیں۔ سپریم کورٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مکمل تفتیش کے بعد دیکھا جائے گا کہ انہیں واپس بھجوایا جائے یا نہیں۔
انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ نے سلک بینک کو 1.2 بلین، سمٹ بینک کو 1.8 بلین، نیشل بینک کو 4.98 بلین اور سندھ بینک کو 4.6 بلین ادا کرنے ہیں۔ مذکورہ ادائیگیاں کیش اور پراپرٹی کی صورت میں کہ جائے گی اور چاروں بینکوں نے رقم کی واپسی کے لیے طریقہ کار پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔
جے آئی ٹی کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ اومنی گروپ اپنی پراپرٹی کی قیمت مارکیٹ ویلیو سے زیادہ بتا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جائیدادوں کی قیمتوں کے حوالے سے تمام بینکوں کے سربراہان اپنے حلف نامے جمع کرائیں۔ سپریم کورٹ کے سربراہ نے کہا کہ اگر مقررہ تاریخ تک ادائگیاں نہ ہوئی تو قانون کے تحت کاروائی کی جائے گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے جے آئی ٹی اس لیے بنائی تھی تاکہ جان سکیں کہ کک بیکس کے پیسے کو قانونی کیسے بنایا گیا۔
ڈی جی ایف آئی اے بشیرمیمن نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید انکوائری میں تعاون نہیں کر رہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ اب جے آئی ٹی کو با اختیار بنا دیا گیا، 10 دن میں تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔