سپریم کورٹ: 386 سرکاری مکانات قابضین سے واگزار

سپریم کورٹ: 386 سرکاری مکانات قابضین سے واگزار

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سرکاری گھروں پر غیر قانونی قبضہ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری ہاؤسنگ نے عدالت کو بتایا کہ 386 سرکاری مکانات قابضین سے واگزار کرا لیے گئے ہیں۔

جمعرات کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے حکم پر سرکاری مکانات کو خالی کرانے کے حوالے سے پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 563  ناجائز قابضین کے خلاف آپریشن کیا گیا ہے۔

سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ 386 سرکاری مکانات واگزار کروا لیے گئے ہیں، خالی کرائے گئے مکانات میرٹ کے مطابق الاٹ کر دیے گئے ہیں۔ عدالت عظمی کو بتایا گیا کہ سرکاری مکانات سے متعلق 44 کیسز ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری ہاؤسنگ کو حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ میں زیر التوا کیسز کی رپورٹ پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  گن کلب کا بھی شائد آج دورہ کروں۔

عدالت میں موجود سینیئر وکیل نعیم بخاری سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ تو بانی ممبر ہیں، روٹی تو کھلائیں گے؟  نعیم بخاری نے کہا کہ روٹی پیسے دے کر ہی کھلاؤں گا۔

دوران سماعت عدالت نے وفاقی دارالحکومت کے زیر التوا کیسز کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔ ماتحت عدالتوں کو ہدایت کی گئی کہ 15 دنوں کے اندران کیسوں کا فیصلہ کریں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کراچی میں سرکاری رہاش گاہوں پر قبضہ سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق 4268 سرکاری مکانوں پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان قابضین سے 3.5 بلین ریکوری کر لی ہے۔

مافیا سرکاری رہائش گاہیں واگزار کرانے نہیں دے رہا

چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالتی حکم کے باوجود اب تک قابضین سے مکان خالی کیوں نہیں کروائے گئے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت نے جو وقت دیا تھا وہ تین دن قبل ختم ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایک مافیہ ہے جو ایسا نہیں ہونے دے رہا۔

عدالت نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو مکانات خالی کروانے کے حوالے سے معاونت فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ سماعت کے دوران اکاؤٹنٹ جنرل آف پاکستان کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ قابضین سے واجب الادا رقم کی وصولی کے لیے نوٹس جاری کریں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ ایک ماہ کے اندر عدالت میں رپورٹ جمع کرائی جائے۔


متعلقہ خبریں