پاکستان کی نومنتخب حکومت آج داخلی اورخارجی محاذوں پر بیک وقت سب سے بڑی ’سیاسی‘ لڑائی لڑے گی۔ ایک جانب وہ اپنے صدارتی امیدوار ڈاکٹرعارف علوی کو صدارتی انتخاب میں منتخب کرانے کے لیے سرگرم ہوگی تو دوسری جانب امریکی سیکرٹری خارجہ مائک پومپیو کے ذریعے امریکہ سے اپنے ’ٹوٹے‘ ہوئے تعلقات بھی دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کرے گی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق نومنتخب وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کو ایک اورمشکل صورتحال کا سامنا اس حوالے سے بھی کرنا پڑے گا کہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں دو روپے فی یونٹ اضافے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ عوامی سطح پر غم و غصے کا سبب بنے گا اور پری پیڈ میٹرز کی تنصیب پر بھی لوگوں میں منفی ردعمل پیدا ہو گا کیونکہ اس کے متعلق پہلے ہی عام تاثر اچھا نہیں ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق گوکہ فی الفور اس بات کا قطعی کوئی خطرہ نہیں ہے کہ حکومت کسی بحران سے دوچار ہوسکتی ہے لیکن تجربہ کاراپوزیشن ضرور صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔
مملکت خداداد پاکستان کے سب سے پہلے صدر اسکندر مرزا تھے جن کے بعد جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقارعلی بھٹو، چودھری فضل الٰہی، جنرل ضیاالحق، غلام اسحاق خان، فاروق احمد خان لغاری،جسٹس(ر) محمد رفیق تارڑ، جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اورممنون حسین نے منصب سنبھالا۔
تاریخ پاکستان میں تین ادوار ایسے بھی گزرے جب صدر مملکت نے اپنی آئینی مدت پوری کیے بغیر استعفیٰ دیا تو چیئرمین سینیٹ نے کچھ عرصہ یہ ذمہ داری ادا کی۔ ان افراد میں سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد تھے جنہوں نے غلام اسحاق خان کے مستعفی ہونے کے بعد یہ ذمہ داری ادا کی اور دوسری مرتبہ بھی انہوں نے اس وقت یہ فریضہ سرانجام دیا جب مدت مکمل کیے بغیر فاروق احمد خان لغاری نے استعفیٰ دیا۔
محمد میاں سومرو نے بھی یہ فریضہ ایک مرتبہ سرانجام دیا۔ وہ اس عہدے پر اس وقت فائز ہوئے جب جنرل پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آج ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے اپنے انتظامات کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس وقت عملاً پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹرعارف علوی، پاکستان پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن اور پکستان مسلم لیگ (ن) و متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔
قواعد و ضوابط کے مطابق صدارتی انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی 27 اگست کو جمع کرائے گئے تھے جن کی جانچ پڑتال 29 اگست کو مکمل ہوئی تھی جس کے بعد 30 اگست کو امیدواروں کی حتمی فہرست شائع ہوئی تھی۔
آئین پاکستان کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی انتخاب کے لیے پانچ پولنگ اسٹیشنز بنائے ہیں۔ قواعد و ضوابط کے تحت صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی عمارت کو پولنگ اسٹیشنوں کا درجہ حاصل ہو گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد اورچاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو پریزائیڈنگ افسر مقرر کیا ہے۔
صدارتی انتخاب کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کےمطابق ایک ہزار بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔
صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کل 11 سو 70 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق ہر رکن کا ایک ووٹ شمار نہیں کیا جاتا ہے۔
طریقہ کار کے تحت صدارتی انتخاب کے لیے سب سے چھوٹی اسمبلی، بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی مناسبت سے ہر صوبائی اسمبلی کے 65 ووٹ شمار ہوتے ہیں البتہ سینیٹ و قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے۔
آئین و قانون کے مطابق صدارتی الیکشن میں مجموعی ووٹوں کی تعداد 702 بنتی ہے اوران میں سے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ملک کا صدر منتخب ہوتا ہے۔
پارٹی پوزیشن کے مطابق موجودہ الیکٹرول کالج میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی تعداد 251 بنتی ہے جبکہ اتحادیوں کو ملانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق 335 تک پہنچ سکتی ہے۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کل ووٹ 144 ہیں اوراگر اتحادیوں کے ووٹ شامل کر لیے جائیں تو بھی یہ تعداد 211 تک پہنچتی دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد 116 ہے۔ پی پی پی کے حلقے یقین رکھتے ہیں کہ اس کے امیدوار بیرسٹر اعتزاز احسن کو اتحادیوں کے مزید 20 ووٹ بھی مل جائیں گے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کو اپوزیشن کی تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے بصورت دیگر اس کے امیدوار کو مشکلات پیش آ سکتی تھیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے نامزد صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی باآسانی پاکستان کے 13 ویں صدر منتخب ہوجائیں گے۔ ملک کے موجودہ صدر ممنون حسین کی صدارتی معیاد آٹھ ستمبر کو ختم ہو جائے گی۔
نومنتخب حکومت کے لیے جہاں یہ امر باعث اطمینان ہو گا کہ اس کے صدارتی امیدوار کو کچھ زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں گی وہیں وہ دورہ پاکستان پر آنے والے امریکی سیکرٹری خارجہ کے حوالے پریشانی بھی محسوس کرے گی کیونکہ ان کی آمد سے قبل امریکہ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آ چکا ہے کہ وہ کولیشن فنڈ کے حوالے سے واجب الادا رقم ادا نہیں کرے گا۔
عالمی صورتحا ل پہ نگاہ رکھنے والے ماہرین کے مطابق سی آئی اے کے سابق سربراہ اور موجودہ سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو کی آمد سے قبل واشنگٹن کی جانب سے کیا جانے والا اعلان بے سبب نہیں ہے بلکہ بین السطور میں ایک ’پیغام‘ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
خارجہ امور کے ماہرین یقین رکھتے ہیں کہ واشنگٹن کے حالیہ اعلان سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا مزید خراب ہوگی۔
اقتصادی صورتحال پہ نگاہ رکھنے والے افراد یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج کے لیے اگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب جانا پڑا تو وہ امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔
پاکستان میں ایک حلقہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اپنی شرائط منوانے کی کوشش کرے گا اورجو اعلان کیا گیا ہے وہ اسی تناظر میں ہے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی گزشتہ روز واضح کرچکےہیں کہ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ کوئی بات چیت سابقہ دور حکومت میں نہیں ہورہی تھی اورتعلقات تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ نو منتخب پاکستانی حکومت چومکھی لڑائی کس طرح لڑتی ہے؟ اورآنے والے چیلنجز سے کیسے نکلتی ہے؟