65 فیصد سیاسی قیادت نیب کی زد میں آ سکتی ہے، شیخ رشید


اسلام آباد: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کی 60 سے 65 فیصد قیادت قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقات کی زد میں آ سکتی ہے۔

’ہم نیوز‘ کے پروگرام ’نیوزلائن‘  میں میزبان ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب نے بہت سی تحقیقات مکمل کی ہوئی ہیں، انور مجید اور ان کے بیٹے کی گرفتاری بہت اہم تھی۔

آصف علی زرداری کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان میں بہت زیادہ برداشت ہے، میری بہت سالوں بعد ان سے بات ہوئی تو علم ہوا کہ وہ ٹی وی پروگرامز بہت دیکھتے ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ انہوں نے آصف زرداری سے ان  پر ٹاک شوز میں ہونے والی تنقید کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا انہیں یہ تمام تنقید اچھی لگتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نااہلی کیس میں پاکستان تحریک انصاف کو دونوں ججز کے حوالے سے جائز تحفظات تھے کیونکہ وہ چوہدری افتخار کے قریب سمجھے جاتے، یہ عمران خان پر سخت ترین حملہ تھا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان سے اس لیے متاثر ہیں کہ وہ سب کی بات سنتے ہیں اور انہیں ساتھ لے کر چلتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کو 22 سال چلانا عمران خان کا کارنامہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب عمران خان کے فیل ہونے کی گنجائش نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کو بہت بڑا دھچکا لگے گا، لوگوں نے ووٹ دے کر ہمیں اپنا قرض دار بنا لیا ہے، اب ہم پر آرام کرنا حرام ہے اب ہم  نے صرف کام کرنا ہے اور حالات بدلنے ہیں، اگر ہم نے بھی کچھ نہیں کیا تو عوام مایوس ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا خیال تھا کہ جب وہ لاہور آئیں گے تو ان کا استقبال بے نظیر بھٹو جیسا ہو گا، مریم نواز کبھی بھی بے نظیر نہیں بن سکتیں، نواز شریف نے عالمی ایجنڈے پر اداروں سے لڑائی کی۔

انہوں نے کہا کہ اب ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا، ایسے قانون بنائے جائیں گے جن کی بدولت سب کو پکڑا جا سکے۔

ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید نے کہا  کہ کابینہ کا حصہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، جب وہ وزیر تھے تب بہت سے لوگ انہیں سلام بھی نہیں کرتے تھے جبکہ آج وہ وزیر نہیں لیکن پھر بھی لوگوں کے جذبے کی وجہ سے گلی میں نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں وزارت اطلاعات میں نہیں جاؤں گا لیکن ساتھ  ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان مجھے جہاں سے کھیلنے کا کہیں گے، میں کھیلوں گا۔

شیخ رشید نے کہا کہ میں نے ایک کروڑ 25 لاکھ روپے تنخواہ کی قربانی دی، مجھے بہت سی جگہوں سے ملازمت کی پیش کش ہوئی لیکن میں نے انکار کر دیا، انسان کے اندر لالچ  ضرور ہوتا ہے، چاہے اس کی فیملی نہ ہو، پھر بھی پیسہ سب کو چاہیے ہوتا ہے۔

پیپلز پارٹی سے تعلقات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے لوگ بہت جلدی ناراض ہو جاتے ہیں اس لیے ہر بات سوچ کر کرنی پڑتی ہے لیکن اگر سیاست کرنی ہے تو یہ سمجھنا پڑے گا کہ کل کے دوست آج  کے دشمن اور آج  کے دشمن کل کے دوست ہوتے ہیں، عمران خان نے اچھا کیا کہ  بلاول بھٹو اور آصف زرداری سے ہاتھ  ملایا۔

سابق وزیر اعظم  پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ کاروباری شخص تھے، نواز شریف چلے ہوئے کارتوس کی مانند ہیں، جس کو چاہیے لے جائیں، ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔

بیرون ملک سے نواز شریف کو مدد ملنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ شاہ عبداللہ نے میرے سامنے کہا کہ نواز شریف نے انہیں وزیراعظم بننے کے بعد بہت مایوس کیا، سعودی عرب اب نواز شریف کا حامی نہیں رہا اور ترکی کے اپنے حالات کچھ  ٹھیک نہیں چل رہے۔

میں اس بات کا حامی ہوں کہ اگر نواز شریف آ جائیں اور قوم سے خطاب کریں، اپنی غلطیاں مان کر عوام کا پیسہ واپس کر دیں تو اس میں کوئی غلط بات نہیں، توبہ کے دورازے مرتے دم تک کھلے ہوتے ہیں، انسان کھی بھی توبہ کر سکتا ہے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں وزارت کا بھوکا نہیں ہوں، لوگ کہتے ہیں مین بنی گالہ نہیں جاتا، وہاں جا کر عمران خان سے یہ کہوں کہ مجھے منسٹری دے دیں؟ میں ایسا نہیں کر سکتا۔

پی ٹی آئی نے بہت کوشش کی کہ میں لاہور سے بھی الیکشن لڑوں لیکن میں نہیں مانا، میں پنڈی کی سیاست کرتا ہوں، صوبوں کی نہیں۔

ملک میں جیلوں کے حالات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کی جیلوں میں بھی بہت عیاشیاں ہیں، قانون تو پھر سعودی عرب جیسا ہونا چاہیے۔


متعلقہ خبریں