نیب قانون کے ذریعے سیاسی انتقام کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، چیف جسٹس


چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیس کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، نیب قانون کے ذریعے سیاسی انتقام کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ احتساب کے نام پر ضیاء نے مشرقی پاکستان کے رہنماوں کو نااہل کیا۔ ماضی کے قوانین نے مجیب الرحمان پیدا کیے۔

جولائی میں ہونیوالی نیب ترامیم مشکوک اور عدالتی فیصلوں سے متصادم ہیں ، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ اب اس تنازعے کے اصل مدعے پر آرہے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ آئینی طور پر کس کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس ٹارگٹ کو کتنے وقت کیلئے اندر رکھا جا سکتا ہے۔ ایک دو کیسز میں دھوکا دہی کے معاملات پر ثالثی چل رہی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کچھ لوگوں کے ساتھ اربوں روپوں پر ثالثی سے مفاہمت کی جا رہی ہے، امید ہے آپ کو معلوم ہوگا میں کیا بات کر رہا ہوں۔ یقینی بنایا جائے کہ عوام کو کوئی اور تدبیر کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ مسابقتی کمیشن سے پوچھیں کتنے افراد نے معیشت پر میناپلی بنا رکھی ہے۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے دلائل کو ہی آگے لے کر چلوں تو موسمیاتی تبدیلی مسئلہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے بعد سیلاب اور دیگر وجوہات سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔ بنیادی حقوق کے بجائے ایک قانون سازی کو کیوں لے کر بیٹھے رہیں؟

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ میں مداخلت کی کوشش کی گئی ، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم عوامی مفاد کا تحفظ کر رہی ہیں؟ عوامی پیسے کو کرپشن کی نذر تو نہیں کیا جاسکتا۔ آئین کے تناظر میں ہم نے ان ترامیم کو دیکھنا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ نیب ترامیم کو نئی پارلیمنٹ کیلئے کیوں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ نئے انتخابات ہونگے، نئی اسمبلی آجائے گی تو اسی کو یہ معاملہ دیکھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی قانون سازی میں نہیں پڑنا چاہیے، نیب ترامیم اس نے چیلنج کیں جو خود پارلیمنٹ سے بھاگا ہوا ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کل درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔ نیب ترامیم میں ایسا تو کچھ برا تھا کہ جس نے اس عدالت کے دروازے کھولے۔


متعلقہ خبریں