اسلام آباد ہائی کورٹ نے عثمان مرزا کیس میں تین شریک ملزموں کی ضمانت خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے چھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کیس کی روزانہ سماعت کرکے دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرے۔ ہائیکورٹ نے ضمانت پر موجود ملزمان کی جانب سے ٹرائل لٹکانے کی کوشش پر قانونی کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ملزمان فرحان شاہین، حافظ عطا الرحمن، محمد ادارس ایف آئی آر میں نامزد ہیں۔ متاثرہ لڑکی لڑکے کے ساتھ ملزمان نے جو کیا فرانزک سے ثابت ہو گیا اور شناخت بھی ہو چکی ہے۔
ملزمان حافظ عطا الرحمن، فرحان شاہین جن کی موجودگی ثابت ہے ان کے بیان کی بنیاد پر کیس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والے ملزموں کا کردار کیا ہے؟ اس اسٹیج پر عدالت نہیں دیکھ رہی۔ ایسا وحشت ناک ایکٹ جس کا ڈر اور اثر ڈائریکٹ سوسائٹی پر ہے عدالت ضمانت نہیں دے سکتی۔
نا ایف آئی آر دیر سے ہونے کا فائدہ ملزموں کو مل سکتا ہے نا یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔ کیونکہ جرم کے ویڈیو کلپ موجود ہیں ویڈیو وائرل ہوئی جس پر ملزمان کی گرفتاری ہوئی۔
عمر بلال مروت کو طالب علم ہونے کی وجہ سے ضمانت ملی وہ فلیٹ سے باہر تھا اس کا رول مختلف ہے۔
عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ریحان مغل ضمانت پر ہے اس کے موبائل سے ویڈیو بنی اگر فرانزک مثبت آئے تو ضمانت منسوخی لگائیں۔ تینوں ملزموں پر وحشت ناک جرم کا الزام ہے ضمانت کے حقدار نہیں ہیں۔