ججز تقرری: وکلا کے احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں؟ چیف جسٹس

قرضے لے کر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینا خطرناک ہے، چیف جسٹس

فائل فوٹو


چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ججز تقرری کے معاملے پر ہمیشہ بار کونسلز کی رائے لی گئی۔ سمجھ نہیں آتا بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔

 نئے عدالتی سال کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلز اور وکلاء کے لیے اب بھی دروازے کھلے ہیں، ججز تقرری کے معاملے پر آ کر مجھ سے بات چیت کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال ہر لحاظ سے مشکل سال تھا۔ کورونا کے باعث مقدمات کو نمٹانے کی راہ میں زیادہ مشکلات کا سامنا رہا پھر بھی عدالتوں کا دروازہ عوام کیلئے کھلا رکھا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال دنیا بھر سمیت پاکستان کے لیے مشکل سال تھا، اسی وجہ سے زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا۔

سپریم کورٹ میں گزشتہ عدالتی سال میں 45 ہزار 644 مقدمات زیر التوا تھے جبکہ گزشتہ سال 20 ہزار 910 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ 12 ہزار 968 نمٹائے گئے۔

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کے معاملے پر وکلا تنظیموں اور بار کونسلز کی جانب سے سخت مخالفت دیکھنے میں آئی تھی جن کا مطالبہ تھا کہ ترقی کے سلسلے میں سینیارٹی کے اصولوں کو مدِنظر رکھا جائے۔

چنانچہ 9 ستمبر کو جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی پرغور کے لیے جوڈیشل کمیشن پاکستان کا طویل اجلاس ہوا جبکہ قریب ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کمپلیکس میں وکلا کا احتجاج اور کنونشن جاری تھا۔

تاہم اجلاس میں عدم اتفاق رائے اتفاق رائے کے باعث جسٹس عائشہ ملک کی بطور پہلی خاتون جج سپریم کورٹ میں ترقی کمیشن نے مسترد کردی تھی۔


متعلقہ خبریں