اسلام آباد: سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کسی نئی جماعت کا حصہ بننے کے متعلق خبروں کو غلط ثابت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی گروپ کا حصہ نہیں، گروپ بنانے والے لوگ اور ہیں میں نہیں۔
ہفتہ کے روز اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہوا ہوں؟ آزاد فرد ہوں، اپنی مرضی سے فیصلے کرتا ہوں۔
عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بات باعث عزت ہے کہ تحریک انصاف کے متعدد رہنما مجھے شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں لیکن اس وقت میں پارٹی کا حصہ ہوں۔ اس پارٹی میں نہیں جس میں اظہار رائے جرم ہے، جہاں پارٹی کو ماضی میں گالیاں دینے والے وفادار ہو گئے ہیں اور جو ساری عمر ساتھ رہا وہ اس لئے ناپسند ہے کہ اختلاف رائے کرتا ہے۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وہ اپنی پارٹی سے ناراض نہیں ہیں۔ آزاد میڈیا ہے جس کے ذہن میں جو کچھ آتا ہے وہ چلا دیتا ہے، پارٹی سے کبھی کسی چیز کا تقاضہ نہیں کیا ہے۔ گزشتہ 34 برسوں سے نواز شریف کے ساتھ ہوں۔
اپنے سیاسی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ن لیگ کے بانی ارکان میں سے ہیں، ن لیگ بنانے والے بانی ارکان میں میرے علاوہ کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو اس وقت ن لیگ کا حصہ ہو۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ پہلے میاں صاحب اور ان کی بیٹی طعنہ زنی میں مصروف رہے، ردعمل دیا تو وہ معاملہ بند ہو گیا لیکن ایسا فرد جو کبھی انتخاب نہیں لڑا وہ شروع ہو گیا، ایسا فرد جو پیپلزپارٹی دور میں ملازم رہا، ذوالفقار علی بھٹو پر برا وقت آیا تو ساتھ چھوڑ گیا، نواز شریف پر برا وقت آیا تو بیرون ملک پناہ لے لی، یہ فرد پارٹی چھوڑتا بھی نہیں ہے، اسی نے ڈان لیکس میں مجھے پھنسوایا لیکن میں ایک ایک چیز کا ذمہ دار ہوں۔
سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر روزانہ میرے خلاف ایک نئی کہانی پھیلائی جاتی رہی ہیں، نواز شریف سے کہتا ہوں کہ 34 برس تک پارٹی اور آپ کے ساتھ غیر مشروط وفاداری دکھائی ہے۔ ایک فوجی خاندان سے متعلق ہوں لیکن جب بھی سول اور فوجی تنازعہ آیا تو نواز شریف کا ساتھ دیا۔ جنرل آصف نواز اور پرویز مشرف سے قدیم تعلق کے باوجود ان کے اقدام کی اس وقت مخالفت کی جب کوئی بولنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ جنرل پاشا سے تعلقات کے باوجود جب محسوس کیا کہ وہ نقصان پہنچا رہے ہیں تو ان کے خلاف موقف اپنایا۔
ڈان لیکس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئی نہیں بولا لیکن میں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی موجودگی میں جو درست سمجھا اس کی بات کی۔
ن لیگ کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ساری زندگی آپ کی مخالفت نہیں کی، اب بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوں لیکن جس طرح کھسر پھسر کر کے یا سرگوشیوں میں باتیں کر کے میرے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اسے مزید برداشت نہیں کر سکتا۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ مسلسل کردار کشی کے باوجود اپنی وابستگی پر قائم ہوں، آئندہ چند ماہ میں صورتحال واضح ہو جائے گی، پارٹی چھوڑی نا ہی اس کا ارادہ ہے لیکن پارٹی نے کہاں جانا ہے اس کی ذمہ داری قیادت پر عائد ہوتی ہے۔
سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان مشکل ترین صورتحال کا شکار ہے، ڈیڑھ برس قبل بتایا تھا کہ ملک کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، آج تیسری بار ذکر کر رہاہوں لیکن سمجھتا ہوں یہاں کسی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ معاملات سدھارنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری نواز شریف پر عائد ہوتی ہے، وہ دو بار وزیراعلی بنے، تین بار وزیراعظم بنے، اگر وہ خوشامدیوں کے جھرمٹ سے نکل کر فیصلہ کریں تو عوام کی اکثریت ان کا ساتھ دے گی۔
انہوں نے کہا کل عمران خان کے بیان پر افسوس ہوا جس میں انہوں نے فوج کے ایک فرد کا ذکر کیا، فوج کچھ نہیں کیا کرتی۔ ملٹری قیادت کو فالو کیا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار ہے۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ میرے پاس مختلف لوگ آئے، شکایتیں کیں لیکن ہر ایک کو یہ مشورہ دیا کہ پارٹی چھوڑ کر نہیں جانا۔ پارٹی انتخاب ہوئے تو میں کنونشن سینٹر میں موجود تھا۔ میں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دیا، ناراض ہوتا تو اپنی رائے نہ دیتا۔
ن لیگ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے اور ووٹ کو تقدس دینے کے نعرے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی نے مشرف کے چار ساتھیوں کو دن کے اجالے میں سینیٹ کا ٹکٹ دیا۔ ذاتی یا انتظامی اسٹاف میں ایسے افراد ہیں جن کا ماضی کچھ اور رہ چکا ہے۔
سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ لوگ وزارتوں کے لئے پارٹیوں میں جاتے ہیں میں نے پارٹی کے لئے وزارت چھوڑی ہے۔
اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ اپنے پرانے ساتھیوں کو لے کر چلا جاتا ہے یا انہیں اہمیت دی جاتی ہے جو بعد میں ساتھ آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری زندگی نواز شریف اور ن لیگ کے بوجھ اٹھائے ہیں لیکن میں کسی کی جوتیاں نہیں اٹھا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پی ایم ایل ن کے 70 فیصد سے زائد ارکان اسمبلی نے گزشتہ عرصے میں پارٹی چھوڑی اور پھر شمولیت اختیار کی۔
انہوں نے کہا کہ جب وزیرداخلہ تھا تو نواز شریف کے سامنے اپنا موقف رکھا، پاناما لیکس شروع ہوا تو میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے کہا کہ عدالت نہ جائیں۔ جے آئی ٹی بنی تو مشورہ دیا کہ آرمی چیف کو بلائیں، ان سے کہتے ہیں کہ فوج کے بریگیڈیئر ٹیم کا حصہ نہ ہوں۔ اگر شامل ہوئے تو جو بھی فیصلہ آیا، دونوں صورتوں میں فوج متنازعہ بنے گی۔
چوہدری نثار کے مطابق میں نے جو بھی مشورے دیے اپنے لئے نہیں بلکہ میاں نواز شریف کے لئے دیے، انہیں کہا کہ اپنا موقف پیش کرنے سے قبل سیاسی ٹیم سے مشاورت کر لیں تاہم کوئی بات نہیں مانی گئی۔
سابق وزیرداخلہ نے تصدیق کی کہ انہوں نے نواز شریف کو عدلیہ اور فوج سے مخاصمت مول نہ لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی اور عوامی میدان میں مقابلہ کرنے کا اعلان کریں۔ یہ نہ کہیں کہ کتنے پی سی او ججز تھے اور کون ڈوریاں ہلا رہا ہے۔
اپنے انکشافات کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ باتیں اس لئے بتا رہا ہوں کہ اپنا مقدمہ نہیں لڑ رہا تھا بلکہ میاں نواز شریف کو مشورے دے رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کہتے ہیں اب وہ نظریاتی ہوگئے ہیں، انہیں وضاحت کرنی چاہیے کہ کہیں یہ محمود اچکزئی کانظریہ تو نہیں ہے۔
چوہدری نثار اس سے قبل یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے الیکشن لڑیں گے۔
نیوز کانفرنس میں شریک صحافیوں نے چوہدری نثار سے مختلف سوالات کئے جس پر ان کا کہنا تھا کہ سوال مکمل کر لیں پھر جواب دوں گا۔