شوگرملز ایسوسی ایشن 70 روپے فی کلو چینی دینے کو تیار

چینی

چینی کے بحران نے پھر سر اٹھا لیا


اسلام آباد: پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کابینہ ڈویژن کے نام خط میں کہا ہے کہ شوگر ملز 70 روپے فی کلو چینے دینے کو تیار ہیں۔

خط کے متن کے مطابق پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت ملز سے چینی اٹھانے کے لیے اقدامات کرے۔

انہوں نے کہا کہ گھریلو صارفین کی چینی کی ضروریات 52 لاکھ ٹن جبکہ 2 ہفتےکی چینی کی ضروریات 2 لاکھ ٹن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 25 جون تک 60 ہزار ٹن گھریلو صارفین کی ضروریات کے لیے کافی ہے شوگر ملزعارضی عدالتی حکم کے تحت 70 روپے فی کلو چینی رضاکارانہ دے رہی ہے۔

’ حکومت کو گرانا ہو تو گندم اور چینی کی قیمتوں کو بڑھا دیا جاتا ہے‘

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز کو70 روپے فی کلو چینی بیچنے کا حکم دیا تھا۔

چینی کی قیمتوں میں اضافہ پرانکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے مشروط حکم امتناع حاصل کر لیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت تک ملک بھر میں عام آدمی کے لیے چینی 70 روپے کلو بیچنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت، واجد ضیاء اور شہزاد اکبر کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ سیکرٹری داخلہ اور انکوائری کمیشن کے ارکان کو بھی نوٹس جاری کر دیے گئے۔

ایگزیکٹو کے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے شوگر ملز کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا الگ الگ ذکر موجود ہے۔ فروری میں کارروائی کے لیے ایڈہاک کمیٹی بنائی گئی اور کمیٹی نے وفاقی حکومت کو لکھا کہ کمیشن کو قانونی کور کیا جائے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ کے لیے وفاقی حکومت کو لکھا اور جیسی کمیٹی نے تجویز دی تھی ویسے ہی وہ کمیشن بن گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس کمیشن نے پھر کیا کہا چینی کی قیمت کیوں بڑھی ؟

مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کمیشن نے 324 صفحات کی رپورٹ میں بہت زیادہ وجوہات بیان کی ہیں جبکہ کمیشن نے سفارش کی کہ ایف بی آر، ایف آئی اے، نیب کو ملزمان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کے مطابق شوگر بہت زیادہ موجود تھی لیکن ماحول ایسا بنایا گیا کہ شوگر کم ہے اور وہ شارٹ ہو گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جتنی آپ کی پروڈکشن ہوتی ہے اس میں سے عام عوام کے لیے کتنا ہوتا ہے۔ چینی عام آدمی کی ضرورت ہے حکومت کو بھی اس حوالے سے ہی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ سادہ سی بات ہے کہ عام آدمی کا بنیادی حق ہے 30 فیصد چینی عام آدمی کے لیے ہوتی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عام آدمی اور کمرشل استعمال کی چینی کی قیمت کو کمیشن نے الگ الگ نہیں کیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ اگر کمیشن نے عام آدمی کو چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا تو پھر کیا کیا ؟ حکومت کی تشویش کمرشل ایریا تو نہیں ہونا چاہیے عام عوام ہونی چاہیے۔ دو سال پہلے چینی کی قیمت کیا تھی۔

مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کمیشن نے عام عوام تک چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ نومبر 2018 میں چینی کی قیمت 53 روہے تھی۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے اپنے ٹی او آر سے باہر جاکر کارروائی کی، معاون خصوصی اور دیگر وزرا کے ذریعے ہمارا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔


متعلقہ خبریں