سینیٹ بل: فاٹا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں شامل


اسلام آباد: سینیٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اختیارات کی قبائلی علاقہ جات تک توسیع کے بل کی منظوری دے دی۔

ن لیگی حکومت کی اتحادی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) نے احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ سے واک آؤٹ کیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنا کام کیا ہے۔ ہم پر کوئی دباؤ نہیں، جنہوں نے بل پرکام کیا ان کو مبارکباد دیتے ہیں، اگر کسی نے منظورشدہ بل سے اختلاف کیا ہے تو وہ اس کا حق ہے۔

عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کے اختیارات کی فاٹا تک توسیع کا بل منظور ہونے کے بعد سینیٹ کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا۔

فاٹا اصلاحات کے بل پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اورنگزیب اورکزئی نے کہا کہ بہتر مشاورت کی ضرورت ہے، ایف سی آر کے سب مخالف ہیں۔ ایف سی آر کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں کہ اصل مسائل سے منہ موڑ لیں۔

فاٹا کے پارلیمانی لیڈر اورنگزیب اورکزئی نے سوال کیا کہ فاٹا اصلاحات کے اگر 25 نکات ہیں تو دیگر کے بجائے صرف اور صرف انضمام پر ہی زور کیوں دیا جارہا ہے؟

تمام اراکین سینیٹ پر مشتمل خصوصی کمیٹی (سینیٹ کی ہول کمیٹی) کو وزیر سیفران جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ آج تک قبائلی عوام کو آئین پاکستان میں شامل نہ کرنے پر شرمندہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ضرورت محسوس کی کہ قبائلی عوام کی محرومیاں دور کی جائیں تو 2015 میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں ریفارمز کمیٹی بنائی گئی۔ فاٹا کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے 25 تجاویز مرتب کی ہیں۔

جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ نے دعویٰ کیا کہ اگر اصلاحات کمیٹی کی پیش کردہ تمام تجاویز کو بل کی صورت میں پاس کیا جائے تو وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کابینہ کے اجلاس میں یکمشت پاس کرایا جائے گا۔

پاراچنار کےسینیٹر ساجد طوری نے فاٹا کے انضمام کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال سے ہمیں جس نے بھی اندھیرے میں رکھا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ این ایف سی میں جو حصہ بنتا ہے وہ دیا جائے، ہم حکومت سے خیرات نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ یہ ہمارا حق ہے۔

فاٹا کے سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ فاٹا اصلاحات سے متعلق آئینی پیچیدگیاں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آئین کے مطابق جب تک صدر مملکت فاٹا سے متعلق ہدایات نہ دیں تو کوئی بھی قدم غیر آئینی ہو گا۔

سینیٹر تاج آفریدی نے خبردار کیا کہ اگر آئینی تقاضوں کے برعکس صدر مملکت کے بغیر فاٹا سے متعلق ترامیم کی گئیں تو اس کو غیر آئینی اقدام کہا جائے گا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عطاالرحمان نے دعویٰ کیا کہ اصلاحاتی کمیٹی نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور تیار کی جانے والی رپورٹ میں فاٹا کے عوامی نمائندوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اجلاس میں موجود فاٹا کے نمائندے بھی فاٹا اصلاحات سے متفق نہیں ہیں۔

انہوں نے متنبیہہ کیا کہ فاٹا میں حالات کو خراب کرنےکی کوشش کی جارہی ہیں کیونکہ وہاں کے عوام سے اصلاحات کے بارے میں نہ پوچھا ہے اور نہ ہی قبائلی عوام نے ساتھ دیا ہے۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی فاٹا تک توسیع ہونی چاہیئے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ حکومت چاہتی تو آرٹیکل 247 کو ختم کرسکتی تھی۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے دعویٰ کیا کہ اصلاحات رپورٹ میں تین فیصد قومی وسائل فاٹا کو دینے کا ذکر ہے لیکن اس پر عمل کی کوئی توقع نہیں ہے۔ جس صوبے میں ضم ہونے جارہے ہیں وہ بھی فاٹا کو این ایف سی میں سے حصہ دینے کو تیار نہیں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ نے کہا کہ آپ قواعد کی خلاف ورزی کررہے ہیں، بل پر بات کرنے کا موقع دیں۔


متعلقہ خبریں